انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابودجانہؓ نام ونسب اسماک نام، ابودجانہ کنیت، قبیلۂ ساعدہؓ سے ہیں اور سعد بن عبادہ سردار خزرج کے ابن عم ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،اسماک بن لوذان بن عبدد بن زید بن ثعلبہ ابن طریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج اکبر۔ اسلام ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے۔ غزوات اوردیگر الات آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو عتبہ بن غزوان سے ان کی برادری قائم کی تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ غزوہ احد میں آنحضرتﷺ نے ایک تلوار ہاتھ میں لیکر کہا اس کا حق کون ادا کرتا ہے، ابودجانہ بولے میں ادا کروں گا ، آنحضرتﷺ نے ان کو تلوار عنایت فرمائی، بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے دریافت کیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ مسلمان کو نہ مارنا اور کافر سے نہ بھاگنا۔ (اصابہ:/۵۰) حضرت ابودجانہؓ نے حسب معمول سرپر سرخ پٹی باندھی اور تنتے اکڑتے صفوں کے درمیان آکر کھڑے ہوئے،آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ چال اگرچہ خدا کو ناپسند ہے؛ لیکن ایسے موقع پر کچھ حرج نہیں۔ (اسد الغابہ:۵/۵۴۷) معرکہ کارزار میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا اوربہت سے کافر قتل کئے اور رسول اللہ ﷺ کی حفاظت میں بہت سے زخم کھائے لیکن میدان سے نہ ہٹے تھے۔ آنحضرتﷺ ان کی اس جانبازی سے نہایت خوش ہوئے مکان تشریف لائے تو حضرت فاطمہؓ سے فرمایا میری تلوار دھوڈالو، حضرت علیؓ نے بھی آکر یہی خواہش کی اورکہا کہ آج میں خوب لڑا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا! اگر تم خوب لڑے تو سہل بن حنیف اور ابو دجانہؓ بھی خوب لڑے ۔ (اسدالغابہ:۲/۳۵۲) غزوۂ بنو نضیر کا کل مال اور اسباب رسول اللہ ﷺ کا حصہ تھا،تاہم آپ نے چند مہاجرین اورانصار کو اس میں سے حصہ عنات فرمایا تھا، بودجانہ کو بھی زمین دی تھی جو انہی کے نام سے مال ابن خرشہ مشہور تھی۔(طبقات ابن سعد حصہ مغاز:۱۴۲) غرض تمام معرکوں میں ان ی شرکت یاں تھی، مصنف استیعاب لکھتے ہیں:لہ مقامات محمودۃ فی مغازی رسول اللہﷺ(غزوات نبویﷺ میں ان کو ممتاز درجہ حاصل ہے) (طبقات ابن سعد حصہ مغازی:۵۸۲) حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں جنگ یمامہ میں نہایت جانبازی دکھائی، مسیلمہ کذاب سے جو مدعی نبوت تھا مقابلہ تھا، وہ اپنے باغ کے اندر سے لڑرہا تھا مسلمان گھسنا چاہتے تھے؛ لیکن دیوار حائل تھی، ابو دجانہؓ تھوڑی دیر تک دیکھتے رہے،اس کے بعد کہا، مسلمانو! مجھ کو ادھر پھینک دو،اس ترکیب سے اگرچہ دیوار پھاند گئے،لیکن پاؤں ٹوٹ گیا، تاہم وہ مشرکین سے دروازہ روکے کھڑے رہے اورجب تک مسلمان باغ میں داخل نہ ہوگئے اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ (اسد الغابہ:۲/۳۵۳) شہادت مسلمان اندر پہنچ کر جوش وخروش سے لڑنے لگےگو ابودجانہؓ کا پاؤں ٹوٹ چکا تھا، تاہم وہ مسیلمہ کو مارنے کے لئے بڑھے اورآخر خود بھی شہید ہوگئے۔ فضل و کمال اگرچہ حضرت ابو دجانہؓ سے حدیثیں منقول نہیں تاہم ان کی نسبت صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: وھو من فضلاء الصحابۃ واکابر ھم یعنی وہ فضلائے صحابہ میں تھے اور بڑے رتبہ کے شخص تھے۔ (اسدالغابہ:۲/۳۵۳) اخلاق وعادات جوش ایمان کا نظارہ جنگ یمامہ کی جانبازی میں ہوچکا ہے، حب رسولﷺ جنگ احد میں ظاہر ہوتی ہے جس وقت تمام مجمع آنحضرت ﷺ کے پاس سے منتشر ہوگیا اورصرف چند آدمی آپ کے ساتھ رہ گئےتھے ان میں دو آدمی آپ کے سپر بنے ہوئے تھے، مصعب بن عمیر اور ابو دجانہؓ اول الذکر جان دیکر ہٹے، اور ابو دجانہ نے کاری زخم کھا کر فدائیت کا ثبوت دیا۔ شجاعت کا اندازہ بھی انہی واقعات سے کرنا چاہئے، صاحب استیعاب لکھتے ہیں: کان بھمۃ من الیھم الابطال یعنی ان کا شمار مشہور اوردلیر بہادروں میں تھا۔ (استیعاب:۲/۶۰۲) اسدالغابہ میں ہے کہ وہ لڑائی کے وقت سرپر سرخ پٹی باندھتے تھے اورناز و تبختر سے چلتے تھے۔ (اسدالغابہ:۵/۱۸۴)