انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علویوں کا خروج سنہ۲۵۶ھ میں ابراہیم بن محمد بن یحییٰ بن عبداللہ بن محمد بن حنفیہ بن علی بن ابی طالب معروف بہ ابن صوفی نے مصر میں اور علی بن زید علوی نے کوفہ میں دولتِ عباسیہ کے خلاف خروج کیا، ابن صوفی کومصر میں کئی ہنگاموں اور لڑائیوں کے بعد ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا، مصر سے بھاگ کرمکہ میں آیا، وہاں کے عامل مکہ نے گرفتار کرکے احمد بن طولون کے پاس مصر بھیج دیا، اس نے قید کردیا، کچھ مدت کے بعد قید سے رہا کردیا، ابن صوفی مصر سے چھوٹ کرمدینہ میں آیا اور یہیں وفات پائی، علی بن زید نے کوفہ میں خروج کرکے وہاں کے عامل کونکال دیا اور خود کوفہ پرمتصرف ہوگیا، خلیفہ معتمد نے شاہ بن میکال نامی سردار کوکوفہ کی طرف بھیجا؛ مگراس نے علی بن زید کے مقابلے میں شکست کھائی، تب خلیفہ نے کچور نامی سردار کوبھیجا، اس نے علی بن زید کوشکست دے کرشوال سنہ۲۵۶ھ میں علی بن زید پردوبارہ چڑھائی کی، لڑائی ہوئی، اس لڑائی میں علی بن زید شکست کھاکر گرفتار ہوا اور کچور اس کودارالخلافہ کی طرف لے آیا، حسین بن زید علوی نے رَے پرقبضہ کرلیا اور موسیٰ بن بغا اس کے مقابلہ کوروانہ ہوا۔ علی نامی ایک شخص نے اپنے آپ کواس سے چند روز پیشتر علوی ظاہر کرکے اوّل بحرین میں لوگوں کواپنی طرف متوجہ کیا؛ پھراحسا چلا آیا، وہاں بھی اپنے آپ کوعلوی بتایا؛ مگرسلسلہ نسب جوپہلے بتایا تھا، اس کوتبدیل کردیا؛ چونکہ جابہ جا علوی لوگ خروج کررہے تھے، اس کے دلم یں بھی اُمنگ پیدا ہوئی اور اپنے آپ کوعلوی بتاکر لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے میں مصروف رہا؛ مگرہرجگہ اس کے نسب کا راز فاش ہوتا رہا، یہ علوی نہ تھا، آخربغداد میں اس نے چند غلاموں کواپنے ساتھ ملایا اور ان کوہمارہ لے کربصرہ گیا، وہاں پہنچ کراس نے اعلان کیا کہ جوزنگی غلام ہمارے پاس چلاآئے گا، وہ آزاد ہے، اس اعلان کوسن کرزنگی غلاموں کا انبوہ کثیر اس کے گرد جمع ہوگیا۔ ان غلاموں کے آقا جب علی کے پاس آئے اور اپنے غلاموں کی نسبت اس سے گفتگو کرنی چاہی توعلی نے اشارہ کردیا، زنگیوں نے اپنے آقاؤں کوگرفتار کرلیا؛ پھرعلی نے ان کوچھوڑ دیا، علی کے جنڈے کے نیچے زنگی غلاموں کی جمعیت ہرروز ترقی کرتی رہی اور علی ان کوملک گیری اور تیغ زنی کی ترغیب اپنی پرجوش تقریروں سے دیتا رہا؛ پھرقادسیہ اور اس کے نواح کولوٹ کربصرہ کی طرف آیا، اہلِ بصرہ نے مقابلہ کیا مگرکشست کھائی، اس کے بعد بصرہ والوں نے بار بار مقابلہ کی تیاری کی اور ہرمرتبہ شکست ہی کھائی۔ زنگیوں کی فوج نے بصرہ پرقبضہ کرلیا، دربارِ خلافت سے ابوہلال ترکی چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ مامور ہوا، نہرریان پرمقابلہ ہوا، زنگیوں نے اس کوبھی شکست دے کربھگادیا؛ غرض زنگیوں نے نہ صرف بصرہ بلکہ ایلہ واہواز اور دوسرے مقامات پرتصرف کرلیا، بار باردربارِ خلافت سے ترکی سردار فوجیں لے کرآئے اور ہرمرتبہ شکست کھاکر واپس گئے، آخرسعید بن صالح نے شکست دے کرزنگیوں کوبصرہ سے نکالا مگر زنگیوں نے ۱۵/شوال سنہ۲۵۷ھ کوبہ زور تیغ بصرہ پرقبضہ حاصل کرکے تمام بصرہ کوجلاکر خاک سیاہ کردیا، بڑی بڑی قیمتی اور خوبصورت عمارتیں جل کرخاکستر اور مکی کا ڈھیر بن گئیں، لوٹ مار کی انتہا نہ تھی، جوسامنے آیا، وہ قتل کیا گیا۔ یہ حالات سن کرخلیفہ معتمد نے محمدمعروف بہ مولد کوایک عظیم الشان لشکر کے ساتھ روانہ کیا اس کا مقابلہ زنگیوں نے بصرہ سے نکل کرنہرمعقل پرکیا، لشکر مولد کوشکست دے کربھگادیا اور تمام مال واسباب لوٹ کربھاگتے ہوؤں کوقتل کیا؛ پھرنہرمعقل کی طرف واپس آگئے، اس کے بعد خلیفہ معتمد نے منصور بن جعفر خیاط کوزنگیوں کے مقابلہ پرمامور کیا، زنگی اپنے سردار علی بن ابان کی ماتحتی میں مقابلہ پرآئے، سخت معرکہ ہوا، صبح سے دوپہر تک برابر تلوار چلی، آخرمنصور بن جعفر کوشکست ہوئی اور وہ مارا گیا، اس خبر کوسن کرخلیفہ معتمد باللہ نے اپنے بھائی ابواحمد موفق کوجسے وہ مکہ مکرمہ کی گورنری پرمامور کرچکا تھا، مکہ مکرمہ سے بلایا اور اس کومصر، فتسرین وعواصم کی سند گورنری دے کرزنگیوں کے مقابلہ پرمامور کیا اور اس کے ساتھ ہی مفلح کوبھی ایک فوج دے کربھیجا، یہ دونوں زنگیوں کے مقابلہ کوروانہ ہوئے، زنگیوں سے لڑائی ہوئی اور مفلح مارا گیا اور اس کے ہمراہی فرار ہونے لگے، اس سے موفق کے ہمراہیوں میں بھی پریشانی اور بے ترتیبی نمودار ہوئی، آخرموفق نے طرح دے کراپنے لشکر کوبچایا اور ترتیب دے کرنہرابوخصیب کے کنارے آکرزنگیوں سے نبرد آزما ہوا، زنگیوں کوشکست دی اور ان کی جمعیت کوپریشان کرکے بہت سوں کوگرفتار وقید کرکے اور بہت سے قیدیوں کوان کی قید سے چھڑا کرواپس سامرا میں آیا؛ مگر اس شکست سے زنگیوں کا فتنہ فرو نہیں ہوا؛ انھوں نے اپنی جمعتی فراہم کرکے پھرقتل وغارت کا بازار گرم رکھا اور سنہ۲۷۰ھ تک اسی طرح بصرہ اور عارق کے اکثرحصہ پرمستولی رہے۔