انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فضل بن سہل کا قتل اوپرمذکور ہوچکا ہے کہ فضل بن سہل جوخبرچاہتا تھا مامون کے گوشِ گذار کرتا تھا اور جس واقعہ کوچاہتا تھا چھپالیتا تھا؛ چنانچہ اس نے ابراہیم بن مہدی کے بغداد میں خلیفہ ہوجانے کی خبر کوبھی مامون الرشید سے پوشیدہ رکھا اور کسی کی مجال نہ ہوئی کہ مامون الرشید کوملکِ عراق کی حالت سے واقف کرسکے، طاہر بن حسین کوفضل نے رقہ میں بطورِ والی متعین کررکھا تھا، طاہر ایک نامور سپہ سالار تھا اور اس قابل تھا کہ اس سے عراق کی بدامنی رفع کرنے میں امداد لی جاتی؛ مگرفضل بن سہل طاہر کوہرثمہ کا مثنیٰ سمجھتا تھا، اس لیے اس کوایک معمولی ولایت کی حکومت پرمامور ومتعین رکھ کرمعطل بنارکھا تھا۔ ابراہیم بن مہدی کی نسبت مامون سے یہ کہہ دیا تھا کہ اہلِ بغداد نے اپنی خوشی اسی میں ظاہر کی کہ ان کے معاملات مذہبی کی نگرانی وانصرام کے لیے ابراہیم بن مہدی کوبغداد کا امیر وعامل بنایا جائے؛ لہٰذا ابراہیم کوبغداد کی حکومت سپرد کردی گئی ہے، ادھر عراق میں بدامنی اور بے چینی دم بدم ترقی کرتی گئی اور لوگ حسن بن سہل سے زیادہ متنفر ہوتے گئے توبعض اشخاص نے ہمت کرکے اور اپنی جان پرکھیل کرمرو کا قصد کیا اور وہاں علی رضا بن موسیٰ کاظم ولی عہد خلافت کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ سوائے آپ کے اور کوئی شخص حالاتِ اصلیہ سے مامون کوواقف وآگاہ نہیں کرسکتا، آپ اس کام کا بیڑا اُٹھائیں اور اس مرحلے کوطے کریں۔ علی رضا اگرچہ فضل بن سہل کواپنا مخالف نہیں پاتے تھے؛ بلکہ ہمدرد ومعاون دیکھتے تھے، لیکن یہ ان کی پاک باطنی او رنیک طینتی تھی کہ وہ جرأت کرکے فوراً اس کام پرآمادہ ہوگئے اور مامون الرشید کوفضل بن سہل اور حسن بن سہل کی نامناسب حرکات، قتلِ ہرثمہ، طاہر کی معطلی، عراق کے فساد اور ابراہیم بن مہدی کی خلافت کے متعلق مفصل اطلاع دے کرکہا کہ لوگ عام طور پربددل ہورہے ہیں اور آپ کی خلافت خطرہ میں ہے، امام علی رضا نے اِن حالات سے مطلع کرنے میں یہ بھی صفائی کے ساتھ کہہ دیا کہ آپ نے جومجھ کوولی عہد بنایا ہے، اس سے بھی بنوعباس اور اُن کے ہواخواہ ناراض ہیں۔ ان تمام باتوں کوسن کرمامون چونک پڑا اور اس نے کہا کہ آپ کے سوا کوئی اور بھی ان باتوں سے باخبر ہے؛ انھوں نے کہا کہ آپ کے فلاں فلاں سردار ومصاحب بھی واقف ہیں؛ لیکن وہ سب فضل بن سہل کے خوف کی وجہ سے دم بخود ہیں اور آپ سے کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے، مامون نے اُن افسروں کوتنہائی میں اپنے پاس طلب کرکے اوّل دریافت کیا توسب نے منع کیا؛ لیکن جب مامون نے ان کویقین دلایا کہ فضل تم کوکچھ نہ کہہ سکے گا توانھوں نے صاف صاف تمام باتیں بیان کردیں اور علی رضا کے بیان کی پورے طور پرتصدیق کی یہ سن کرمامون نے مرو سے عراق کی جانب روانگی کا قصد کیا، فضل کوجب یہ کیفیت معلوم ہوئی تواُس نے اُن سرداروں کوجنھوں نے مامون کوحالاتِ اصلیہ سے واقف کرکے علی رضا کے بیان کی تصدیق کی تھی، تکلیفیں پہنچائیں، کسی کوقید کردیا، کسی کوبے عزت کرکے کوڑے لگوائے؛ مگراب کیا ہوسکتا تھا جوہونا تھا وہ ہوچکا، مامون نے یہ دانائی کی کہ فضل بن سہل کواپنی طرف سے خائف ومایوس نہیں ہونے دیا اور فضل بن سہل کے چچازاد بھائی غسان بن عباد کوخراسان کا گورنربناکر خود خراسان سے عراق کی جانب روانہ ہوا، مقام سرخس میں وارد ہوا؛ یہاں فضل بن سہل کوحمام میں چار شخصوں نے قتل کرڈالا اور خود فرار ہوگئے، مامون نے اعلان کرادیا جوشخص قاتلین فضل کوگرفتار کرکے لائے گا اس کودس ہزار دینار انعام دیا جائے گا، قاتلین گرفتار ہوکر حاضر ہوئے، مامون نے ان کے قتل کا حکم دیا؛ چنانچہ وہ قتل کئے گئے اور ان کے سرحسن بن سہل کے پاس بھیج دیئے گئے۔ مامون نے حسن بن سہل کوتعزیت کا خط لکھا اور بجائے فضل بن سہل کے اس کواپنا وزیر بنایا، فضل بن سہل کی ماں کے پاس خود برسم تعزیت گیا اور کہا کہ جس طرح فضل آپ کا فرزند تھا؛ اسی طرح میں بھی آپ کا فرزند ہوں، چند روز کے بعد حسن بن سہل کی بیٹی بوران سے شادی کرکے حسن کے مرتبے کومامون نے اور بھی زیادہ بڑھادیا تھا؛ غرض فضل بن سہل کا قتل بالکل اُسی طرح وقوع پذیرہوا جس طرح جعفر برمکی کا قتل ظہور میں آیا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ فضل بن سہل کومامون الرشید نے قتل کرایا اور وہ چاروں شخص مامون الریش کے مامور کردہ تھے جنھوں نے فضل کوحمام میں قتل کیا، فضل اپنے آپ کوکشتنی وگردن زدنی ثابت کرچکا تھا، مامون نے اس معاملہ میں اپنے باپ ہارون الرشید کے نقشِ قدم پرعمل کیا؛ لیکن فرق صرف اس قدر ہے کہ ہارون الرشید نے جعفر برمکی کوقتل کراکر برامکہ کے تمام خاندان کومعتوب بنایا اور قتلِ جعفر کا الزام اپنے اوپر لے لیا؛ مگرمامون الرشید نے فضل کوقتل کراکر اس کے خاندان پراس قدر عنایتیں کیں کہ کسی کوجرأت نہ ہوسکی کہ مامون کوبدنام کرسکے اور ملزم ٹھہراسکے؛ حتی کہ فضل کا بھائی اور ماں باپ بھی مامون کی شکایت زبان پرنہ لاسکے، فضل بن سہل مقام سرخس سے ۲/شعبان سنہ۲۰۳ھ کوقتل ہوا۔