انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عتاب ؓبن اسید نام ونسب عتاب نام، ابو عبدالرحمن کنیت، نسب نامہ یہ ہے،عتاب بن اسید بن ابو عمیص ابن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ قرشی اموی قبل از اسلام عتاب ابتدا سے سلیم الفطرت تھے؛چنانچہ قبول اسلام کے پہلے ہی سے وہ شرک سے دور اوراسلامی تعلیمات سے قریب تر تھے،فتح مکہ سے ایک دو شب پہلے آنحضرتﷺ نے ان کی فطرت سلیم کا تذکرہ فرمایا، کہ قریش کے چار آدمی شرک سے دور اوراسلام سے قریب تر اوراس کی طرف راغب ہیں، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں فرمایا عتبہ ا بن اسید جبیر بن مطعم ،حکیم بن حزام اورسہیل بن عمرو۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۹۵) اسلام ،فتح مکہ کے دن بلا جبرواکراہ بطیب خاطر اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے جب آنحضرتﷺ حنین کے لیے جانے لگے، تو عتاب کو مکہ کا امیر بنایا،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے اس موقع پر یہ شرف حضرت معاذ بن جبلؓ کو حاصل ہوا، اس کے بعد عتاب کو ملا مکہ کی امارت پر سرفراز فرماتے وقت ان الفاظ میں عتاب کی عزت افزائی فرمائی ،عتاب ! تم کو معلوم ہے، کہ کن لوگوں پر میں نے تم کو عامل بنایا ہے،اہل اللہ پر اگر مکہ والوں کے لیے تم سے زیادہ کوئی موزوں شخص نظر آتا تو اسے بناتا۔ پھر۸ھ میں حج کی امارت کا شرف حاصل ہوا، اس لحاظ سے عتاب تاریخ اسلام میں سب سے پہلے امیر الحج ہیں۔ (اسد الغابہ:۳/۵۸) عہد صدیقی آنحضرتﷺ کی وفات تک عتاب مکہ کے عامل رہے،حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنے زمانہ میں بدستور انہیں ان کے عہد پر برقراررکھا۔ (اسد الغابہ:۳/۳۵۸) وفات ان کی عمر نے وفانہ کی، عین عالم شباب میں جب کہ ان کی عمر ۳۵،۳۶ سال سے زیادہ نہ تھی ۱۳ھ میں مکہ میں وفات پائی۔ (ایضاً) فضل وکمال کم سنی کی موت نے عتاب کے علمی کمالات کو چمکنے کا موقع نہ دیا، اس کے باوجود ارباب سیر انہیں فضلاے صحابہ میں شمار کرتے ہیں (ایضاً) چند احادیث نبوی بھی ان سے مروی ہیں عطاء اورابن مسیب نے ان سے مرسل روایت کی ہے۔ (تہذیب الکمال:۲۵۷) نماز باجماعت میں تشدد نماز با جماعت کے بارہ میں اتنے متشدد تھے کہ امارتِ مکہ کے زمانہ میں قسم کھا کھا کر کہتے تھے ،کہ جو شخص جماعت کے ساتھ نماز نہ ادا کرے گا،اس کا سر قلم کردوں گا، جماعت سے غفلت منافقوں کا کام ہے،اہل مکہ نے ان کے اس سختی سے گھبرا کر آنحضرتﷺ سے شکایت کی کہ آپ ﷺ نے کس اجڈ اعرابی کو عامل بنایا ہے۔ (اصابہ:۳/۲۱۲) تدین عہدہ داروں کا ہدایا وتحائف سے دامن بچانا بہت مشکل ہے،عتاب باوجود یکہ کئی برس تک مکہ کے عامل رہے، لیکن اس سلسلہ میں کبھی کوئی چیز نہیں قبول کی، ایک مرتبہ کسی نے دو چادریں پیش کیں انہیں لے کر اپنے غلام کیسان کو دیدیا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۹۵) قناعت عام طور پر حکام اورعہدہ داروں میں قناعت نہیں ہوتی، لیکن عتاب کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی،آنحضرتﷺ نے ان کے اخراجات کے لیے دو درہم روزانہ مقرر فرمائے تھے،عتاب اسی پر قانع رہے، کہا کرتے تھے، کہ جو پیٹ دو درہم میں نہیں بھرتا اس کو خدا کبھی آسودہ نہ کریگا۔ (اصابہ:۲۱۲) نزول آیہ عقیلی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ کے نزدیک کلام اللہ کی یہ آیت وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا ترجمہ:اوراپنے پاس سے مجھ کو فتح یابی کے ساتھ غلبہ عطا فرما "من سلطان نصیر سے مراد عتاب کی ذات ہے (ایضاً) لیکن اس کی روایتی حیثیت قابل اعتبار نہیں تاہم اس سے اتنااندازہ ضرور ہوتا ہے،کہ عتاب کی شخصیت اس کا مصداق بن سکتی تھی تمام ارباب سیران کے فضائل وکمالات کے معترف ہیں،کان عتاب رجلا خبیراصالحا فاضلا عتاب باخبر صالح اور فاضل تھے۔ (اسد الغابہ:۳/۳۵۸)