انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
نماز کی نیت کب کرنا چاہئے؟ نیت کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ وہ عبادت سے پہلے بھی ہو اور اس سے متصل بھی، اور اس سے متصل ہونے کی فقہاء نے دوصورتیں کی ہیں: ایک یہ کہ حقیقی طور پرمتصل ہو اور اس کی صورت یہ ہےکہ تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے نیت کرے، یہ صورت بہتر ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ حقیقتاً تو نیت عبادت سے متصل نہ ہو؛ لیکن حکماً متصل ہو، حکما متصل ہونے کامطلب یہ ہے کہ نیت اور نماز کے درمیان کسی ایسے کام میں نہ لگا ہو جونماز سے گریز کو بتانا ہو؛ چنانچہ وضو اور تیمم کے وقت ہی نماز کی نیت کی ہو؛ پھرنماز پڑھنے گیا اور درمیان میں کسی ایسے کام میں مشغول نہیں ہوا تو اس کی نیت ابھی باقی ہے؛ اگر ایک جگہ نیت کرکے نماز کی جگہ جانے کے بعد بھی وہ نیت باقی رہتی ہے تو چلتے ہوئے جونیت کی جائے ظاہر ہے وہ بدرجہ اولیٰ کافی ہوگی؛ البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ نیت کا تعلق قلب سے ہے، نیت کے لئے ایسا قلبی استحضار ضروری ہے کہ اگر نماز شروع کرتے وقت اس سے پوچھا جائے کہ تم کونسی نماز پڑھ رہے ہو تو وہ ادنی غور وتامل کے بغیر بتاسکے کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں، یہ تمام تفصیلات علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب الأشباہ والنظائر میں نیت کی بحث میں لکھی ہے۔ جہاں تک نیت کے بعد گفتگو کی بات ہے تو اگر نیت کے بعد نماز کی طرف جاتے ہوئے یا نماز کا انتظار کرتے ہوئے کچھ گفتگو کرلی جائے تو دوبارہ نیت ضروری نہیں اور اگر نیت کے بعد طویل گفتگو یا مباحثہ میں لگ گیا ہو جو بظاہر نماز سے اعراض اور گریز کو ظاہر کرتا ہو تو دوبارہ نیت کرنی ہوگی، مقتدی کے لئے بہتر ہے کہ جس وقت امام نماز شروع کرے اس وقت اقتداء کی نیت کرے؛ تاہم امام کے نماز شروع کرنے سے پہلے بھی اور نماز کے لئے کھڑے ہونے کے بعد اقتداء کی نیت کرلے تو کافی ہے۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۱۶۳،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)