انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بارویں مثال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یوشک ان ینطوی الا سلام فی کل بلدالی المدینۃ کما تنطوی الحیۃ الی جحرھا"۔ (کنزالعمال، باب فی قلۃ الاسلام وغربتہ:۱۲۰۱،۲۴۰۔ بخاری، باب الایمان یأرزالی المدینۃ، حدیث نمبر:۱۸۷۶۔ مسلم، باب بیان ان الاسلام بدأغریباً وسیعود غریباً، حدیث نمبر:۳۹۱، شاملہ، موقع الإسلام، میں ان الفاظ کے ساتھ ہے "ان الایمان لیأرز الی المدینۃ کماتأرز الی حجرھا"۔ مسند احمد،:۲۸۶،۲۲۲،۴۹۶) ترجمہ: وقت آنے والا ہے کہ اسلام ہر شہر سے سمٹتا ہوا مدینہ آرہے، جیسے سانپ ہر طرف سے بھاگ کر پھر اپنے بل کی طرف لپٹتا جاتا ہے۔ اس حدیث میں سانپ کی جارح حیثیت (کہ وہ کسی کو کاٹنے کے درپے ہو) مذکور نہیں ؛بلکہ اسے بھاگ کر پناہ لینے والے کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے،سو یہ بات نہ کی جائے کہ اسلام کو سانپ سے کیوں تشبیہ دی، مشبہ اورمشبہ بہ میں ہر جہت سے تشبیہ نہیں ہوتی، یہ سانپ کی اس حالت سے تشبیہ ہے جب وہ کسی کے درپے آزار نہیں۔ اس حدیث میں بتلایا گیا کہ مدینہ منورہ قیامت تک مرکز اسلام رہے گا، جب اسلام کہیں نہ ہوگا مدینہ منورہ اس وقت بھی بقعہ اسلام ہوگا، علامات قیامت کے طورپر بھی حرمین شریفین کبھی مقبوضہ کفار نہ ہوں گے "جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ" کے اعلان سے اسلام وہاں بطور دوام آیا ہے، کفر وہاں سے بطورِ دوام نکلا ہے،نہ وہاں کوئی باطل نئے سرے سے آئے گا، نہ پہلا ہی عود کرے گا، قرآن کریم میں ہے: "قُلْ جَاءَ الْحَـقُّ وَمَایُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ"۔ (السباء:۴۹)