انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ بنی نضیر(ربیع الاول ۴ہجری) غزوۂ بنی نضیر کے متعلق اہل سیر کی رائے ہے کہ یہ ۴ ہجری کا واقعہ ہے، بخاری شریف میں ہے کہ ابن اسحاق نے بیر معونہ اور اُحد کے بعد کا واقعہ قرار دیاہے ، ارباب حدیث کی رائے یہ ہے کہ یہ غزوہ‘ غزوۂ اُحد سے پہلے اور غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد کا واقعہ ہے، بخاری میں زہری کی روایت حضرت اروہؓ سے یہی ہے، اہل سیر نے غزوۂ بنی نضیر کا سبب یہ لکھا ہے کہ بیر معونہ کے واقعہ کے بعد حضرت عمروؓ بن امیہ نے قبیلہ عامر کے دو آدمی قتل کر دئے تھے اور جن کا خوں بہا واجب الادا تھا، اور جس کا ایک حصہ معاہدہ کی رُو سے بنو نضیر پر واجب الادا تھا، اس کے مطالبہ کے لئے آنحضرت ﷺ نے بنو نضیرکے پاس تشریف لے گئے ، انھوں نے قبول کیا لیکن درپردہ یہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے بالا خانہ پر چڑھ کر آنحضرت ﷺپر پتھر گرا دے، اتفاق سے آپﷺ اس وقت بالا خانہ کی دیوار کے سایہ میں کھڑے تھے، عمرو بن حجاش ایک یہودی اس ارادہ سے کوٹھے پر چڑھا، آپﷺ کو اس کے ارادہ کا حال معلوم ہو گیا اور آپﷺ فوراً مدینہ واپس چلے آئے، صحابہؓ کے استفسار پر آپﷺ نے فرمایا کہ یہود نے بدعہدی کا ارادہ کیاتھا اور اﷲ نے مجھے خبر دی اس لئے میں چلاآیا،بہت پہلے قریش نے بنو نضیر کو کہلا بھیجا تھا کہ محمد ﷺ کو قتل کر دو ورنہ ہم خود آکر تمہارا اسیتصال کر دیں گے، بنو نضیرپہلے سے اسلام کے دشمن تھے، قریش کے پیغام نے ان کو اور زیادہ آمادہ کیا، بنو نضیرنے آنحضرت ﷺکے پاس پیغام بھیجا کہ آپﷺ تیس آدمیوں کو لے کر آئیں ‘ ہم بھی اپنے احبار کو لائیں گے، آپﷺ کا کلام سن کراگر ہمارے احبار آپ ﷺ کی تصدیق کریں تو ہم کو بھی کچھ عذر نہ ہوگا، چونکہ وہ بغاوت کی تیاری کر چکے تھے آپﷺ نے کہلا بھیجا کہ جب تک تم معاہدہ نہ لکھ دو میں تم پر اعتماد نہیں کر سکتا؛لیکن وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے ، آپﷺ یہود بنو قریظہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے تجدید معاہدہ کی خواہش کی، انھوں نے تعمیل کی ، بنو نضیر کے لئے یہ نظیر موجود تھی کہ ان کے برادران دینی نے معاہدہ لکھ دیا ہے لیکن وہ کسی طرح معاہدہ کرنے پر راضی نہ ہوئے، بالآخر انھوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپﷺ تین آدمی لے کر آئیں ‘ ہم بھی تین عالم ساتھ لاتے ہیں،یہ علماء اگر آپ ﷺ پر ایمان لائیں تو ہم بھی لائیں گے، آپ ﷺ نے منظور فرمایا؛لیکن راہ میں آپﷺ کو ایک صحیح ذریعہ سے معلوم ہوا کہ یہود تلوار باندھ کر تیار ہیں کہ جب آپﷺ تشریف لائیں تو آپﷺ کو قتل کر دیں۔ بنو نضیر کی سرکشی کے مختلف اسباب تھے ، وہ نہایت مضبوط قلعوں میں پناہ گزیں تھے جن کا فتح کرنا آسان نہ تھا، اس کے علاوہ عبداللہ بن اُبی نے کہلا بھیجا کہ اطاعت نہ کرنا ‘بنو قریظہ تمہارا ساتھ دیں گے اور میں دو ہزار آدمی لے کر تمہاری اعانت کرو ں گالیکن بنو نضیرکے تمام خیالات غلط نکلے، بنو قریظہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور منافق علانیہ اسلام کے مقابلہ میں نہیں آسکتے تھے، ان حالات میں آنحضرت ﷺ نے محمد بن مسلمہ ؓ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ " بنو نضیر کے پاس جاؤ اورکہو کہ تم نے معاہدہ توڑا ہے ‘ فریب اور غدّاری پر آمادہ ہو ، اس لئے یہاں سے نکلنے کے لئے تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی جان کی خیر نہیں ، بنو نضیر کے سردار حئی بن اخطب نے یہ سنا تو سنا ٹے میں آگیا اور عبداللہ بن ابی کی شہہ پا کر اپنے بھائی جدی بن اخطب سے جواب بھیجا کہ ہم کسی صورت میں اس مقام کو نہیں چھوڑیں گے ، جو جی میں آئے کرو ، اس کے بعد وہ لوگ قلعہ بند ہو گئے ، ان کے پاس خوراک کی کمی تھی نہ پانی کی ، ہتھیار بھی کافی مقدار میں تھے اس لئے ایک سال تک قلعہ بندرہ سکتے تھے ، آپ کی دی ہوئی مہلت کی مدت ختم ہوئی تو آپ صحابہ کو ساتھ لے کران کی سر کوبی کے لئے نکلے ، مدینہ میں حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم کو نائب مقرر فرمایا اور حضرت علیؓ کو علم عطا فرمایا، آپ نے پندرہ روز تک ان کے قلعوں کا محاصرہ فرمایا، قلعہ کے گرداُن کے جو نخلستان تھے ان کے چند درخت کٹوا دئے، سہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ سب نخلستان نہیں کاٹے گئے بلکہ صرف لینتہ جو ایک خاص قسم کاکھجور ہے اور عرب کی عام خوراک ہے اس کے درخت کٹوادئے گئے، قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے: " (اے ایمان والو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو وہ اﷲ کے حکم سے تھا تاکہ وہ کافروں کو ذلیل کرے " ( سورۂ حشر : ۵) ممکن ہے کہ درختوں کے جھنڈسے مکیں گاہ کا کام لیا جا تا ہو اس لئے وہ صاف کر ا دئے گئے کہ محاصرہ میں کوئی چیز حائل نہ ہو، بالآخربنو نضیر اس شرط پر راضی ہوئے کہ جس قدر مال و اسباب اونٹوں پرلے جاسکیں لے جائیں اور مدینہ سے باہر نکل جائیں، چنانچہ سب گھروں کو چھوڑ کر نکل گئے، وہاں لوگوں نے ان کا اس قدر احترام کیا کہ خیبر کا رئیس تسلیم کر لیا، بنو نضیر اگر چہ وطن چھوڑ کر نکلے مگر اس شان سے گاتے بجاتے نکلے کہ جشن کا دھوکا ہوتا تھا، اونٹوں پر سوار تھے ساتھ ساتھ باجا بجتا تھا، مطربہ عورتیں دف بجاتی اور گاتی تھیں ، عرو ہ بن الوردعسبی مشہور شاعر کی بیوی کو یہود نے خرید لیا تھا، وہ بھی ساتھ ساتھ تھی، اہل مدینہ کا بیان ہے کہ اس سرو سامان کی سواری کبھی ان کی نظر سے نہیں گزری تھی، ہتھیاروں کا ذخیرہ جو ان لوگوں نے چھوڑا اس میں پچاس زر ہیں، پچاس خود اور تین سو چالیس تلواریں تھیں، ان کے جانے کے بعد یہ جھگڑا پیش آیاکہ انصار کی اولاد جنھوں نے یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا اور یہودی ان کو اتحاد مذہب کی وجہ سے ساتھ لئے جاتے تھے انصار نے ان کو روک لیا کہ ہم ان کو جانے نہ دیں گے، اس پر قرآن مجید کی یہ آیت اتری،لاَ اِکراہَ فی الدین،مذہب میں زبردستی نہیں ہے، اس غزوہ کے بعد مدینہ کی سر زمین یہودی فتنہ گروں سے بڑی حد تک محفوظ ہو گئی، مسلمان امن و امان کی فضا میں سانس لینے لگے، سودی کاروبار ختم ہو گیا؛چونکہ یہ یہودیوں کا ذریعہ معاش تھا، اس کی جگہ قرضۂ حسنہ کا طریقہ رائج ہوا۔ ( سیرت احمد مجتبیٰ ، شاہ مصباح الدین شکیل )