انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بنی عمرصعصہ حضور ﷺ ایک مرتبہ قبیلہ بنی عامر صعصعہ کے لوگوں کے پاس گئے، ان کاایک شخص بحیرہ بن فراس قشیری آپ ﷺ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور لوگوں سے پوچھا کہ آپ ﷺ کون ہیں ؟ انھوں نے بتایا کہ بنو ہاشم قریش کے محمد بن عبداللہ ہیں جو خود کو اللہ کا رسول بتا تے ہیں اور ہم سے حمایت کے طلب گار ہیں، ہم نے آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہااور ہم آپ ﷺ کو اپنے شہر لے جا کر حفاظت کریں گے،یہ سن کر بحیرہ نے لوگوں سے کہا : اس بازار ِعکاظ سے شاید ہی کوئی قبیلہ ایسی سخت چیز لے جارہا ہے جیسی کہ تم، کیا تم تمام عرب کے مقابلہ پر نکلو گے اس لئے کہ اس شخص کی قوم نے اسے نکال دیا ہے اور اس کی تکذیب کی ہے، پھر اس نے حضور ﷺ سے مخاطب ہوکر کہا : جائیے اور اپنی قوم سے مل جائیے، اگر آپ ﷺ میری قوم کے پاس نہ ہوتے تو میں آپ ﷺ کاسر تن سے جدا کر دیتا، یہ سن کرآنحضرت ﷺاُٹھ کھڑے ہوئے اور انپی اونٹنی پر سوارہو گئے ، بحیرہ نے اونٹنی کے پیٹ پر زور سے ڈنڈا مارا جس سے وہ اچھل پڑی اور حضور ﷺ کو نیچے گرا دیا، اتفا ق سے بنی عامر کی ایک خاتون ضباعہ عامر بن قرط وہا ں موجود تھی جس نے مکہ میں حضور ﷺ کے ہاتھ پر ایمان قبول کر لیا تھا، اس نے فوراً اپنے چچا زاد بھائیوں کو للکارا : ائے آل عامر ! اب میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ، تمہارے سامنے یہ بد سلوکی ہو رہی ہے اور تم میں سے کوئی انہیں نہیں بچاتا، اس کے بھائیوں میں سے تین شخص اُٹھے اور بد سلوکی کرنے والوں کی خوب مار پیٹ کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی اور بعد میں وہ ایمان لائے۔ (سیرت احمد مجتبی- مصباح الدین شکیل) حضوراکرمﷺ نے نہ صرف قبائل کو بلکہ مختلف افراد کو بھی اسلام کی دعوت دی جس کے نتیجہ میں کئی افرادنے اسلام قبول کیا، چند کا ذکر ذیل میں درج کیا گیا ہے: حضرت ایاسؓ بن معاذ کا اسلام حضرت ایاسؓ بن معاذ یثرب کے رہنے والے تھے، جنگ بعاث سے کچھ پہلے بنو خزرج کا ایک وفد قریش سے حلف و تعاون کی تلاش میں مکہ آیاتھا، حضرت ایاسؓ بھی اسی وفد کے ساتھ آئے تھے، اس زمانہ میں یثرب میں اوس اور خزرج کے قبائل میں سخت عداوت پائی جاتی تھی ، جب حضور اکرم ﷺ کو اس وفد کے آنے کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انھیں مخاطب کرکے فرمایا : تم جس غرض سے آئے ہو تمھیں اس سے بھی بہتر چیز کی ضرورت ہے ، انھوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا میں اﷲ کا رسول اور اس کا پیامبر ہوں، لوگوں کو میں اس بات کی دعوت دیتاہوں کہ وہ اﷲ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور اﷲ نے مجھ پر قرآن اتاراہے، پھر آپﷺ نے قرآن کی چند آیات تلاوت فرمائیں تو ایاس ؓ بن معاذ جو نو خیز جوان تھے، کہا : اے لوگو! واﷲ جس غرض کے لئے تم لوگ آئے ہو یہ اس سے بہتر ہے ؛لیکن ابولحیسر نے کنکریاں اٹھا کر ان کے منہ پر مارتے ہوئے کہا چپ رہو ہم کسی اور کام کے لئے آئے ہیں ؛چنانچہ ایاس ؓ خاموش ہوگئے اور رسول اﷲﷺ تشریف لے گئے، یہ وفد قریش کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کر سکا اور واپس چلاگیا، ایاسؓ بھی ان کے ساتھ یثرب واپس ہوگئے اورچند روز بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا، ان کی قوم کے بعض لوگوں نے بتایا کہ مرتے وقت ان کی زبان سے کلمۂ توحید اور تسبیح و تحمید و تکبیر ادا ہو رہے تھے اس لئے ایاسؓ کے مسلمان ہونے میں شک نہیں کرتے تھے اور انھیں یقین تھا کہ وہ مکہ میں اسلام قبول کر چکے تھے۔