انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت معافی بن عمرانؒ نام ونسب معافی نام اور ابو مسعود کنیت تھی،نسب نامہ یہ ہے؛معافی بن عمران ابن محمد بن عمران بن نفیل بن جابر بن وہب بن عبید اللہ بن لبید بن جبلہ بن غنم بن دوس بن محاسن بن سلمہ بن فہم (طبقات ابن سعد:۷/۱۸۴)ازدی ،فہمی ،نفیلی اورموصلی ان کی خاندانی اوروطنی نسبتیں ہیں۔ ولادت کی تصریح نہیں ملتی،لیکن علماء نے ان کا سال وفات ۱۸۵ھ اور عمر۶۰ سال ذکر کی ہے جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ ۱۲۵ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم وتربیت انہیں کم عمری ہی سے طلب علم کا بے پناہ شوق تھا؛چنانچہ بکثرت مقامی علماء سے اکتسابِ فیض کے بعد بھی ان کی تشنگی علم فرو نہ ہوسکی اور دوسرے ملکوں کا سفر کرکے وہاں کے ممتاز منبع ہا ئے علم سے سیراب ہوئے،اسی سلسلہ میں کوفہ پہنچے،جو حرمین کے بعد علوم دینیہ کا سب سے بڑا مرکز شمار ہوتا تھا اوروہاں زمرۂ تبع تابعین کے گل سر سبد حضرت سفیان ثوریؒ کی خدمت میں ایک عرصہ تک قیام کرکے فقہ،ادب اورحدیث میں مہارت پیدا کی،اس طویل شرف صحبت نے ان کو امام ثوری کے علوم کا گنجینہ بنادیا تھا،ابوزرکریا الازدی اپنی تاریخ موصل میں لکھتے ہیں: رحل فی طلب العلم الی الافاق وجالس العلماء ولزم الثوری وتادب بادابہ وتفقہ بہ واکثر عنہ (تہذیب التہذیب:۱۰/۱۹۹) انہوں نے طلب علم کے سلسلہ میں دنیا کا سفر کیا،علماء کی صحبت میں بیٹھے،علی الخصوص امام ثوری سے فقہ وادب وغیرہ کی کافی تحصیل کی۔ شُیوخ ان کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے؛کیونکہ انہوں نے عراق اورجزیرہ کے علاوہ دنیا کے تقریباً ہر ممتاز علمی مرکز سے اکتساب فیض کیا تھا خود اپنے بیان کے مطابق انہوں نے آٹھ سو شیوخ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا تھا،ان میں لائق ذِکر اسماء گرامی حسبِ ذیل ہیں: ہشام بن عروہ،ابن جریج،امام اوزاعی، سعید بن ابی عروبہ،سفیان ثوری ،مالک بن مغول،حریز بن عثمان،سلیمان بن ہلال،ابراہیم بن طہمان،اسرائیل بن یونس،ثور بن یزید ،جعفر بن برقان، حماد بن سلمہ، حنظلہ بن ابی سفیان ،عبدالحمید بن جعفر زکریا بن اسحاق،ہشام بن سعد۔ تلامذہ ان کے حلقہ تلامذہ میں بہت سے نامور علماء شامل ہیں ان کے صاحبزادگان احمد وعبدالکبیر کے علاوہ چند ممتاز نام یہ ہیں، بشر الحافی،اسحاق بن عبدالواحد قرشی،ابراہیم بن عبداللہ،محمد بن عبداللہ بن عمار، محمد بن جعفر الورکانی،حسن بن بشر الہجلی مسعود بن جویریہ،ہشام بن بہرام،محمد بن علی الموصلی ،یحییٰ بن مخلد المقسمی،موسیٰ بن مروان الرقی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۴۸) علم وفضل فضل وکمال کے اعتبار سے ان کا شمار علمائے اعلام میں ہوتا ہے بالخصوص موصل اورجزیرہ میں علومِ دینیہ کو انہی کی جدوجہد سے فروغ حاصل ہوا۔ چنانچہ بقول علامہ ابن "اہل موصل ان کو اپنے لیے مایہ صدافتخار وناز تصور کرتے تھے (طبقات ابن سعد:۷/۱۸۴)سفیان ثوری ان کی جلالتِ شان کے اس حد تک معترف تھے کہ انہیں "یاقوت العلماء" کا خطاب دے دیا تھا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۴) ابن عمار کا بیان ہے کہ: لمأ راحداً اقط افضل منہ (شذرات الذہب:۱/۳۸۰) میں نے ان سے بڑا فاضل نہیں دیکھا۔ بشر بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ معافی علم ودانش اورنیکی وصالحیت کا پیکر مجسم تھے۔ کان المعافی محشؤابا لعلم وَ الفھم والخیر (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۰۰) معافی میں علم وفہم اورصلاح وخیر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ حدیث حدیث میں انہیں خاص درک وکمال حاصل تھا،ائمہ جرح وتعدیل نے ان کی مرویات کو ثقہ اورحجت قراردیا ہے،ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ فاضلا خیرا صاحب سنۃ (طبقات ابن سعد:۷/۱۸۴) وہ ثقہ،فاضل،صالح،اورسنت کے متبع تھے۔ علاوہ ازیں ابن معین،ابوحاتم،ابن خراش اورعجلی نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۰۰) تقویٰ وصالحیت کمالِ علم کے ساتھ زہد وعبادت اورتقویٰ وصالحیت بھی ان کا طغرائے امتیاز تھی،ابوزکریا ازدی کا بیان ہے کہ: کان زاھداً فاضلا شریفاً کریماً عاقلاً (تہذیب التہذیب:۱/۲۰۰) وہ متقی، فاضل، شریف ونیک اوراہلِ دانش تھے۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ بڑے عابد وزاہد تھے،عبداللہ بن مبارک جو عمر میں ان سے بہت بڑے تھے،فخر کے ساتھ ان سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں"حدثنی الرجل الصالح" (تہذیب التہذیب:۱/۲۰۰) رضا برضائے الہیٰ غم ومسرت ہرموقع پر خدا وند قدوس کی مشیت پر راضی وشاکر رہتے تھے،خوارج نے ان کے دولڑکوں کو نہایت بے دردی سے تہ تیغ کردیا تھا لیکن کبھی خدا کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۲) سیرچشمی اللہ تعالی نے انہیں کثرتِ علم کے ساتھ دنیاوی خوش حال اور فارغ البالی سے بھی سرفراز کیا تھا،مال ودولت کے علاوہ بڑے صاحبِ جائیداد تھے،لیکن اس کے باوجود خود ان کی زندگی نہایت سادہ تھی جو کچھ غلہ ان کے پاس آتا تھا،اس میں سے بقدرِ کفاف رکھ کر باقی سب اپنے احباب میں جن کی تعداد ۳۴ تھی تقسیم کردیتے تھے (ایضاً)بشر بن الحارث کا بیان ہے کہ شیخ معافی کبھی تنہا کھانا تناول نہ فرماتے تھے؛بلکہ اپنے ساتھ دسترخوان پر کچھ لوگوں کو ضرور شریک کرتے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۰۰) وفات باختلافِ روایت ۱۸۵ھ یا ۱۸۶ھ میں رحلت فرمائی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۳)ابن عماد حنبلی نے اول الذکر کو اصح قرار دیا ہے (شذرات الذہب:۱/۳۰۸)انتقال کے وقت ۶۰ سال کی عمر تھی۔ تصنیف ابو زکریا ازدی نے "تاریخ موصل" میں امام معافیؒ کو حدیث وغیرہ کی بکثرت کتابوں کا مصنف لکھا ہے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۶۲)لیکن کسی دوسرے مآخذ سے اس کی تائید نہیں ہوئی۔