انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بنی اوس کے نقیب حضرت اسید بن حضیر ۱- حضرت اسیدؓ بن حضیر : حضرت اسیدؓ کی کنیت ابو یحییٰ اور ابو عتیک تھی ، آپ کا تعلق قبیلہ اوس کے خاندان اشہل سے تھا ، آپ کے والد حضیر جنگ بعاث میں قبیلہ اوس کے سپہ سالار تھے ، حضرت اسیدؓ بھی نوشت و خواند کے علاوہ فن سپہ گیری میں مہارت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مصعبؓ بن عمیر محلہ بنی عبد الاشہل میں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے ، جب حضرت اسیدؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو غصہ میں حضرت مصعبؓ کو مارنے کے لئے بھالا لے کر دوڑے، تب حضرت مصعبؓ نے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے بڑے موثر انداز میں اسلام کی دعوت دی ، حضرت اسیدؓ ذی فہم اور باشعور انسان تھے ، حضرت مصعب ؓ بن عمیر کی تبلیغ سے بہت متاثر ہوئے اور فوراً اسلام قبول کر لئے ۔ دوسری بیعت عقبہ میں حضرت اسیدؓ بن حضیر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کئے تو حضور ﷺ نے آپ کو خاندان بنی عبد الاشہل کا نقیب مقرر فرمایا ، مواخات میں آپ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید ؓ بن حارثہ کے بھائی بنے۔ حضرت اسیدؓ غزوۂ بدر میں شرکت نہ کرسکے ؛لیکن غزوات اُحد و خندق میں شریک ہوکر کافروں سے بڑی بہادری سے جہاد کئے، غزوۂ اُحد میں ان کو سات زخم آئے ، فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ کے خاص دستہ میں شامل تھے، حضور اکرم ﷺ نے انہیں بنی عبدا لاشہل کی مسجد کا امام مقرر فرمایا تھا۔ ایک مرتبہ حضورﷺ نے انہیں کسی بات پر چھڑی سے ٹھوکا دیا جب کہ وہ ننگے بدن تھے ، عرض کیا کہ آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ، حضور ﷺ نے فرمایا : بدلہ لے لو ، عرض کیا کہ آپ کے بدن پر تو کپڑے ہیں ، حضور ﷺ نے اپنا لباس ہٹایا اور فرمایا: اپنا بدلہ لے لو ، لیکن حضرت اسیدؓ والہانہ طور پر حضور ﷺ کے بدن پر بوسے دینے لگے، حضور ﷺ نے انہیں نعم الرجل(بہت اچھے آدمی) کا خطاب دیا، حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ وہ انصار کے تین بہترین آدمیوں میں سے ایک ہیں، دوسرے صحابہ حضرت سعدؓ بن معاذ اور حضرت عبادہؓ بن بشیر تھے۔ حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ صدیق کی بیعت کا معاملہ پیش آیا تو حضرت اسیدؓ نے بڑی سوجھ بوجھ سے قبیلہ اوس کو بیعت پر آمادہ کیا ، ان کو دیکھ کر قبیلہ خزرج نے بھی بیعت میں حصہ لیا ، حضرت عمرؓ ان کی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے،۱۷ ہجری میں جب حضرت عمرؓ بحیثیت امیر المومنین بیت المقدس کی فتح کے بعد چابیاں لینے کے لئے گئے تھے تو حضرت اسیدؓ بھی دیگر مہاجرین و انصار کے ساتھ شامل تھے۔ حضرت اسیدؓ نے ۲۰ ہجری میں مدینہ میں وفات پائی ، امیر المومنین حضرت عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔