انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ابو الحسن علی بن یوسف بن تاشقین امیر المسلمین یوسف بن تاشقین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ابو الحسن علی بن یوسف بن تاشقین ۳۳ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، ۵۰۳ھ میں علی بن یوسف طلیطلہ کا محاصرہ کیا،یہ شہر اپنی مضبوط فصیل اورمحل وقوع کی خوبی کے سبب فتح نہ ہوسکا،مگر علی بن یوسف نے وادی الحجارہ اوراس نواح کے اکثر شہروں کو فتح کرلیا، اسی سال بشونہ (لسین) اور پرتگال کے بقیہ شہروں کو بھی عیسائیوں سے چھین لیا گیا علی بن یوسف نے اپنے بھائی تمیم بن یوسف کو اندلس کا نائب السلطنت (وائسرائے) مقرر کیا تھا تمیم نے الفانسو اول بن رومیر بادشاہ پر شلونہ کی جنگی تیاریوں کا حال سُن کر اُس کی پیش قدمی کو اپنے عملے روک دیا اور سرقسط کو عیسائیوں سے فتح کرکے اسلامی مقبوضات کو وسیع کیا،بادشاہ برشلونہ نے شاہ فرانس کو اپنی مدد پر آمادہ کرکے ۵۱۲ھ میں سرقسط کا محاصرہ کرلیا، عیسائیوں کی فوجیں سامانِ حرب اورکثرتِ تعداد کے سبب اس قدر زیادہ طاقتور تھیں کہ سرقسط کے مسلمان تابِ مقاومت نہ لاسکے، سامانِ رسد کی نایابی سے جب جان پر آبنی تو انہوں نے شہر کا دروازہ کھول دیا،اس طرح سر قسط عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا اور اس صوبے کے دوسرے شہروں اورقلعوں کو بھی عیسائیوں نے فتح کرلیا، یہ رنج وہ خبر جب علی بن یوسف کو پہنچی تو وہ مراقش سے ۵۱۳ھ میں اندلس آیا اور اشبیلیہ و قرطبہ ہوتا ہوا سرقسط پہنچا اور تمام اس علاقہ کو جو عیسائیوں نے فتح کیا تھا،فتح کرکے اوراچھی طرح عیسائیوں کو سزادے کر اور اقرار فرماں برداری لے کر ۵۱۵ھ میں واپس مراقش پہنچا، الفانسو چہارم جس نے طلیطلہ کو اپنا دارالسلطنت بنالیا تھا ۵۱۳ھ میں فوت ہوگیا تھا،لیکن الفانسو اول بادشاہ برشلونہ موجود تھا،اسی کو ابن رومیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،علی بن یوسف کے اندلس سے مراقش جاتے ہی ابن رو میرنے السامی مقبوضات پر چڑھائی کردی، اس چڑھائی کا سبب یہ تھا کہ غرناطہ کے عیسائی باشندوں نے اس کو لکھا تھا کہ تم غرناطہ پرحملہ کرو،ہم تمہارے اس حملہ کو کامیاب بنانے کی پر اثر کوشش کریں گے، چنانچہ ابن رومیر غرناطہ تک اپنی زبردست فوجیں لئے ہوئے پہنچ گیا،عیسائیوں کی امیدوں پر درحقیقت یوسف بن تاتقین کی فتوحات سے پانی پھر گیا تھا اور وہ مرابطین سے بہت ڈرتے تھے،لیکن خود اندلس کے بعض مسلمان باشندے مرابطین کی عداوت میں عیسائیوں کی ہمدردی کا دم بھرتے تھے،اس رذیلانہ طرزِ عمل سے عیسائیوں کی ہمتیں پھر بڑھ گئی تھیں اور مرابطین کی فوجوں کے مقابلے پر نکلنے لگے تھے،ابن رو میر کا یہ حملہ بھی اسی وجہ سے ہوا تھا،مگر ذوالحجہ ۵۱۵ھ میں غرناطہ کے قریب مسلمانوں نے اس کو تمیم بن یوسف بن تاشقین کی سرداری میں ایسی شکست دی کہ وہ آدھی فوج ضائع کرکے برشلونہ کی طرف بھاگ گیا،غرناطہ اور اس کے نواح میں عیسائی زیادہ آباد تھے اوروہ ہمیشہ مسلمانوں کی مخالفت اورعیسائی سلاطین کی کامیابی کے لئے سازشوں میں مصروف رہتے تھے،ان حالات سے واقف ہوکر علی بن یوسف نے ۵۱۶ ھ میں خود اندلس میں آکر بہت سے عیسائیوں کو جو غرناطہ اوراس کے نواح میں سکونت پذیر تھے،افریقہ کی جانب بھیج دیا، بعض کو اندلس کے دوسرے مقامات میں منتقل کردیا۔ ۵۲۰ھ میں ابو طاہر تمیم بن یوسف نے اپنے بیٹے تاشقین بن علی بن یوسف بن تاشقین کو اندلس کا وائسرائے مقرر کیا، ۳۶ برس سات مہینے مراقش واندلس پر حکومت کرنے کے بعد ماہِ رجب ۵۳۷ میں علی بن یوسف کا انتقال ہوا۔