انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مسنون طریقۂ غسل، کفن کے درجات اوراس کے پہنانے کا مسنون طریقہ میت کو نہلانے کا مسنون طریقہ جب کفن تیار ہوجائے تو پہلے نہلانے کے لیے ایک تختہ منگواکر اس کو صاف کرلیں اور تین یا سات بار اس کے چاروں طرف لوبان وغیرہ کی دھونی دیں؛ تاکہ تعظیم بھی ہوجائے اور کسی قسم کا تعفن اور بدبو وغیرہ نہ ہو، میت کو تختے پر چت لٹادیں اوراس کے کپڑے نکال کر ناف سے رانوں تک ایک کپڑا ڈال دیں تاکہ ستر چھپا رہے۱؎اگر نہلانے کی کوئی علحدہ جگہ ہوتو پانی ادھر ادھر پھیلنے سے محفوظ رہے گا ورنہ تختے کے نیچے ایک گڈھا کھدوادیں؛ تاکہ پانی نہ پھیلے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو ،ضرورت کے بقدر مناسب گرم پانی اپنے پاس رکھ لیں اورپانی گرم کرتے وقت بیری کے پتے ڈالدیں۲؎۔ غسال (نہلانے والا)اپنے ہاتھوں میں کوئی کپڑا یا تھیلی لپیٹ کے میت کو استنجاء کرائے، بلا تھیلی کے ستر کی جگہ ہاتھ نہ لگائیں اورنہ ہی دیکھیں پانی سے خوب نجاست کو صاف کریں۳؎۔ منھ اور کان میں روئی بھگوکر رکھدیں، اس کے بعد بغیر کلی اورناک میں پانی چڑھائے کے وضو کرائے؛ اگر وہ بحالت جنابت مراہے؛ تو پھر کلی بھی کرائیں اورناک میں پانی بھی چڑھائیں۴؎۔ وضو کے بعد سر اورڈاڑھی کو خطمی وغیرہ سے دھوئیں تاکہ صاف ہوجائیں۵؎۔ ( خطمی نہ ہو تو صابن کا استعمال کریں)اس کے بعد پھر بائیں کروٹ لٹا کر مونڈھے کے نیچے تک تین دفعہ پانی اچھی طرح بہائیں اورخوب ملتے رہیں، صابن وغیرہ سے میل صاف کریں ،اس کے بعد داہنی کروٹ پر لٹا کر پھر اسی طرح تین مرتبہ پانی ڈالدیں۶؎۔ اس کے بعد میت کو سر کی طرف سے اٹھا کر ٹیک لگا کر بٹھائیں؛ پھر اس کے پیٹ کو آہستہ آہستہ ملتے ہوئے دبائیں تاکہ پیٹ میں اگر کچھ نجاست ہو تو نکل جائے؛ پھر کچھ گندگی نکلے تو اس کو صاف کردیں اوراس کے نکلنے کی وجہ سے پھر سے وضو کروانے کی ضرورت نہیں۷؎۔ اس کے بعد اس کو بائیں کروٹ لٹاکرایک لوٹے میں کافور کا پانی سرسے پیر تک تین مرتبہ ڈالدیں اس کے بعد بدن کو کپڑے سے صاف کرکے دوسرا خشک کپڑا ستر پر ڈالدیں اور پہلے کا بھیگا ہوا کپڑا نکال دیں۸؎۔ (۱)"عن عائشة ، قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الإسلام نظيف فتنظفوا ، فإنه لا يدخل الجنة إلا نظيف " المعجم الاوسط للطبرانی، باب من اسمہ احمد، حدیث نمبر:۵۰۵۰، حدیث نمبر:۱۱/۱۲۰۔ "وَيُوضَعُ ، كَمَا مَاتَ ( كَمَا تَيَسَّرَ ) فِي الْأَصَحِّ ( عَلَى سَرِيرٍ مُجَمَّرٍ وِتْرًا ) إلَى سَبْعٍ فَقَطْ (قَوْلُهُ مُجَمَّرٍ ) أَيْ : مُبَخَّرٍ ، وَفِيهِ إشَارَةٌ إلَى أَنَّ السَّرِيرَ يُجَمَّرُ قَبْلَ وَضْعِهِ عَلَيْهِ تَعْظِيمًا وَإِزَالَةً لِلرَّائِحَةِ الْكَرِيهَةِ" رد المختار، باب صلاۃ الجنازۃ:۶/۲۳۱۔ "عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ لَا تُبْرِزْ فَخِذَكَ وَلَا تَنْظُرَنَّ إِلَى فَخِذِ حَيٍّ وَلَا مَيِّتٍ" سنن ابی داؤد، باب فی ستر المیت عند غسلہ،حدیث نمبر:۲۷۳۲۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ" ابن ماجہ، باب الستر علی المومن ودفع الحدود، حدیث نمبر:۲۵۳۴۔ "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً قَالَ لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا يَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَهُوَ وَتْرٌ يُحِبُّ الْوَتْرَ" بخاری، باب مائۃ اسم غیر واحد، حدیث نمبر:۵۹۳۱۔ "عَائِشَةَ تَقُولُ لَمَّا أَرَادُوا غَسْلَ النَّبِيِّﷺ قَالُوا وَاللَّهِ مَا نَدْرِي أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثِيَابِهِ كَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا" سنن ابی داود،باب فی ستر المیت عند غسلہ، حدیث نمبر:۲۷۳۳۔ (۲)"عن يحيى بن معاذ الرازي ، يقول من سلم منه الخلق رضي عنه الرب " شعب الایمان، باب فصل فیما ورد من الاخبار فی التشديد، حدیث نمبر:۶۵۱۵۔ "يسخن الماء إن تيسر؛ لأنه أبلغ في التنظيف" الفقہ الاسلامي وادلتہ، باب کیفیۃ الغسل: ۲/۶۱۲۔ "عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ فَأَوْقَصَتْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ " بخاری، باب الکفن فی ثوبین، حدیث نمبر:۱۱۸۶۔ (۳)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ : أَنَّ عَلِيًّا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ غَسَّلَ النَّبِىَّ ﷺ وَعَلَى النَّبِىِّﷺ قَمِيصٌ وَبِيدِ عَلِىٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ خِرْقَةٌ يَتَّبِعُ بِهَا تَحْتَ الْقَمِيصِ" السنن الکبری للبیھقی، باب ینھی عنہ من النظر،حدیث نمبر:۶۸۶۴۔ "عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ لَا تُبْرِزْ فَخِذَكَ وَلَا تَنْظُرَنَّ إِلَى فَخِذِ حَيٍّ وَلَا مَيِّتٍ" سنن ابی داود، باب فی ستر المیت عند غسلہ،حدیث نمبر: ۲۷۳۲۔ (۴)"عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُنَّ فِي غَسْلِ ابْنَتِهِ ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا" بخاری،باب التیمن فی الوضوء والغسل، حدیث نمبر:۱۶۲۔ "فلیتوضئیها وضوء الصلاة فهذا بيان وضوئها" المعجم الکبیر، باب ام سلیم بنت ملحان الانصاریۃ ام انس بن مالک، حدیث نمبر:۳۰۴ ، جلدنمبر: ۲۵/۱۲۴۔ (۵)"عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ فَأَوْقَصَتْهُ قَالَ النَّبِيُّﷺ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ " بخاری،باب الکفن فی ثوبین،حدیث نمبر:۱۱۸۶۔ (۶)"عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّﷺ لَهُنَّ فِي غَسْلِ ابْنَتِهِ ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا" بخاری،باب التیمن فی الوضوء والغسل،حدیث نمبر:۱۶۲۔ "عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَاتُوُفِّيَتِ الْمَرْأَةُ فَأَرَادُوا أَنْ يَغْسِلُوهَا...... ثُمَّ أَدْخِلِى يَدَكِ مِنْ تَحْتِ الثَّوْبِ فَامْسَحِيهَا بِكُرْسُفٍ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَأَحْسِنِى مَسْحَهَا" السنن الکبری للبیھقی،باب فی غسل المراۃ،حدیث نمبر:۷۰۱۳۔ "عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا قَالَ وَقَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ مَشَطْنَاهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ" صحیح مسلم،باب فی غسل المیت، حدیث نمبر:۱۵۵۸۔ (۷)"عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا تُوُفِّيَتِ الْمَرْأَةُ فَأَرَادُوا أَنْ يَغْسِلُوهَا فَلْيُبْدَءُوا بِبَطْنِهَا فَلْيُمْسَحْ بَطْنُهَا مَسْحًا رَفِيقًا إِنْ لَمْ تَكُنْ حُبْلَى ، فَإِنْ كَانَتْ حُبْلَى فَلاَ تُحَرِّكِيهَا" السنن الکبری للبیھقی،باب فی غسل المراۃ، حدیث نمبر:۷۰۱۳۔ "وقال الحسن يغسل ثلاثا فإن خرج شيء غسل ما خرج ولم يزد على الثلاث " مصنف عبدالرزاق،باب عصر المیت،حدیث نمبر :۶۰۹۶۔ (۸)"عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا غَسَّلْنَا بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا وَنَحْنُ نَغْسِلُهَا ابْدَءُوا بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا" بخاری،مواضع الوضوء من المیت،حدیث نمبر:۱۱۷۸۔ "عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا تُوُفِّيَتِ الْمَرْأَةُ ..... ثُمَّ أَقْعِدِيهَا فَأَفْرِغِى عَلَيْهَا وَابْدَئِى بِرَأْسِهَا حَتَّى تَبْلُغِى رِجْلَيْهَا، فَإِذَا فَرَغْتِ مِنْهَا فَأَلْقِى عَلَيْهَا ثَوْبًا نَظِيفًا ، ثُمَّ أَدْخِلِى يَدَكِ مِنْ وَرَاءِ الثَّوْبِ فَانْزِعِيهِ عَنْهَا" السنن الکبری للبیھقی، باب فی غسل المراۃ،حدیث نمبر:۷۰۱۳۔ کفن اللہ کا جو بندہ اس دنیاسے رخصت ہوکر موت کے راستے سے دارآخرت کی طرف جاتا ہے ،اسلامی شریعت نے اس کو اعزاز واکرام کے ساتھ رخصت کرنے کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا ہے، جو نہایت ہی پاکیزہ انتہائی خدا پرستانہ اورنہایت ہمدردانہ اورشریفانہ طریقہ ہے ،حکم ہے کہ پہلے میت کو اس طرح غسل دیا جائے جس طرح کوئی زندہ آدمی پاکی اورپاکیز گی حاصل کرنے کے لیے نہاتا ہے؛ اس غسل میں پاکی اورصفائی کے علاوہ غسل کے آداب کا بھی پورا لحاظ رکھا جائے۔ غسل کے پانی میں وہ چیزیں شامل کی جائیں جو میل کچیل صاف کرنے کے لیے لوگ زندگی میں بھی نہانے میں استعمال کرتے ہیں،اس کے علاوہ آخر میں کافور جیسی خوشبو بھی پانی میں شامل کی جائے تاکہ میت کا جسم پاک صاف ہونے کے علاوہ معطر بھی ہوجائے پھراچھے صاف ستھرے کپڑوں میں دفنا یا جائے؛ لیکن اس سلسلے میں اسراف سے بھی کام نہ لیا جائے اس کے بعد جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی جائے جس میں میت کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا اہتمام اورخلوص سے کی جائے، پھر رخصت کرنے کے لیے قبرستان تک جایا جائے؛ پھراکرام واحترام کے ساتھ بظاہر قبر کے حوالے اورفی الحقیقت اللہ کی رحمت کے سپرد کردیا جائے؛ کسی بھی مسلمان کی تجہیز و تکفین تمام مسلمانوں پر فرض کفایہ اوراس کے قریب ترین رشتہ داروں پر واجب ہے، اگر متوفی کا مال موجود ہو تو خود اس کے مال سے تجہیز و تکفین ہوگی؛ لیکن اگر اس کا کچھ متروکہ نہ ہو تو جو رشتہ دار مال ہونے کی صورت میں اِس کے وارث ہوتے انہیں پر حصص کے بقدراس کی تجہیز وتکفین کی ذمہ داری ہوگی، مثلا: پسماندگان میں ایک بھائی ایک بہن ہوں تو دو تہائی اخراجات بھائی اورایک تہائی بہن کے ذمہ ہوں گے۔ "عن أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَتْ ابْنَتُهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ " بخاری، باب غسل المیت ووضوئہ بالمائہ والسدر،حدیث نمبر:۱۱۷۵۔ "فیراد بلفظ الامر الوجوب بالنسبۃ الی اصلی الغسل" اعلاء السنن،باب غسل المیت وطریقہ:۸/۲۱۶۔ "عن إبراهيم قال الكفن من جميع المال، عن ابراهيم قال: يبدأ بالكفن، ثم الدين، ثم الوصية"مصنف عبدالرزاق،باب الکفن من جمیع المال،حدیث نمبر:۶۲۲۳،۶۲۲۴۔ کفن کے تین درجے ہیں (۱)کفنِ ضرورت (۲)کفن ِکفایہ (۳)کفن ِسنت۔ کفنِ ضرورت سے مراد وہ کم سے کم کپڑا ہے جس سے متوفی کا جسم ڈھک جائے خواہ کیسا بھی کپڑا میسر ہو۔ "عن خَبَّاب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَلْتَمِسُ وَجْهَ اللَّهِ فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ فَمِنَّا مَنْ مَاتَ لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ مَا نُكَفِّنُهُ إِلَّا بُرْدَةً إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ فَأَمَرَنَا النَّبِيُّﷺ أَنْ نُغَطِّيَ رَأْسَهُ وَأَنْ نَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ مِنْ الْإِذْخِرِ" بخاری،باب اذالم یجد کفنا الا مایواری، حدیث نمبر:۱۱۹۷۔ "عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ : الْمَيِّتُ يُقَمَّصُ وَيُؤَزَّرُ وَيُلَفُّ بِالثَّوْبِ الثَّالِثِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ كُفِّنَ فِيهِ" السنن الکبیر اللبیھقی، باب جواز التکفین فی القمیص،حدیث نمبر:۶۹۳۷۔ کفنِ کفایہ سے مراد کفن کی کم از کم وہ مقدار ہے جو بلا کراہت درست ہوجاتی ہے، مردوں کے لیے دوکپڑے ہیں ازار اورلفافہ، عورتوں کے لیے تین کپڑے:خمار اوراس کے ساتھ ازار و لفافہ۔ "عن عائشة قالت : قال أبو بكر لثوبيه اللذين كان يمرض فيهما : اغسلوهما ، وكفنوني فيهما : فقالت عائشة : ألا نشتري لك جديدا ؟ قال : لا إن الحي أحوج إلى الجديد من الميت" مصنف عبدالرزاق، باب المیت لایتبع....حدیث نمبر:۶۱۷۸، صفحہ نمبر: ۳/۴۲۴۔ "عن محمد أنه كان يقول تكفن المرأة التي حاضت في خمسة أثواب أوثلاثة" مصنف ابن ابی شیبہ،باب ما قالوا في كم تكفن المرأة: ۳/۱۴۸۔ کفنِ سنت کفن سنت میں مردوں کے لیے تین کپڑے ہیں ان تین کپڑوں میں ایک قمیص ہوگی جس میں آستین کلی اور گریبان نہیں ہوگا اورگردن سے پاؤں تک کے حصے کو شامل ہوگی، دوسرا کپڑا ازار ہوگا جو سر سے پاؤں تک کے حصے کو شامل ہوگا، تیسرا کپڑا لفافہ ہے جو اس سے بھی کسی قدر بڑا ہوگا جس میں سر سے پاؤں تک میت کو لپیٹا جاسکے اور اوپر کی جانب اور نیچے کی جانب میں باندھا جاسکے۔ عورتوں کے لیے مذکورہ تین کپڑوں کے علاوہ اور دو کپڑوں کا اضافہ کرنا ہے (۱)خمار(اوڑھنی) جو چہرے اورسر کے حصہ کو چھپاسکے، (۲) دوسرا کپڑا ایک ایسا ٹکڑا ہو جو سینہ سے ران تک کے حصہ کو چھپا سکے جسے سینہ بند کہا جاتا ہے۔ "عن جابر قال : كفن النبيﷺ في ثلاثة أثواب : قميص وإزار ولفافة" موطا محمد، باب ما یکفن بہ المیت: ۲/۸۸۔ "عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ : الْمَيِّتُ يُقَمَّصُ وَيُؤَزَّرُ وَيُلَفُّ بِالثَّوْبِ الثَّالِثِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلاَّثَوْبٌ وَاحِدٌ كُفِّنَ فِيهِ" السنن الکبری للبیقھی،باب جواز التکفین فی القمیص، حدیث نمبر:۶۹۳۷۔ "عن أم أنس قالت قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذا توفيت المرأة..... وليكن كفنها في خمسة أثواب الخ " المعجم الکبیر، ام سلیم بنت ملحان الانصاریۃ: ۲۵/۱۲۴۔ "تكفن المرأة في خمسة أثواب في درع وخمار ولفافة ومنطق وخرقة تكون على قطنها" مصنف ابن ابي شیبۃ، ماقالوا في كم تكفن المرأة: ۳/۱۴۸۔ "عن لَيْلَى بِنْتَ قَانِفٍ الثَّقَفِيَّةَ قَالَتْ كُنْتُ فِيمَنْ غَسَّلَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ وَفَاتِهَا فَكَانَ أَوَّلُ مَا أَعْطَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحِقَاءَ ثُمَّ الدِّرْعَ ثُمَّ الْخِمَارَ ثُمَّ الْمِلْحَفَةَ ثُمَّ أُدْرِجَتْ بَعْدُ فِي الثَّوْبِ الْآخَرِ قَالَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عِنْدَ الْبَابِ مَعَهُ كَفَنُهَا يُنَاوِلُنَاهَا ثَوْبًا ثَوْبًا" سنن ابی داؤد، باب فی کفن المرأۃ، حدیث نمبر:۲۷۴۵۔ "تلبس القمیص، ثم الخمار فوقہ، ثم تربط الخرقۃ فوق القمیص بقی القمیص، فد الحدیث علی کونہ فوق الخرقۃ، ومذھب الفھاء ھوالذی ذکروہ حکمۃ الخرقۃ انھا کیلا ینتشرالکفن ای عن الصدر الی السرۃ او عن الفخذ ین علی الاختلاف فی محلھا وسعتھا، وھذالحکمۃ تقتضی کونہا فوق القمیص" اعلاء السنن،باب تکفین المرأۃ: ۸/۲۴۸۔ کفن پہنانے کا طریقہ سب سے پہلے کفن کے کپڑے میں سے تین کپڑے کے لمبے ٹکڑے ڈوری کی شکل میں لیکر ایک سرہانے ایک درمیان میں کمرکے پاس اورایک پیر کی طرف کفن کے نیچے پھیلا دو، اس کے بعد پہلے لفافہ (جس کو چادر بھی کہتے ہیں) بچھائیں پھر اس پر دوسری چادر (جس کو ازار بھی کہتے ہیں) بچھائیں پھر اس پر کرتہ بچھائیں ،اس کے بعد میت کو کفن پر لٹا کر کرتہ پہنادیں؛ پھرسر اور ڈاڑھی میں عطر اور سجدہ کی جگہوں پردونوں ہتھیلیاں ،دونوں گھٹنوں اوردونوں پاؤں پر کافور مل دیں۱؎۔ اس کے بعد میت کے بائیں جانب والے ازار کو لپیٹ دیں؛ پھر دائیں جانب والے حصہ کو لپیٹیں؛ پھر اس کے بعد لفافہ والی چادر بھی اسی طرح لپیٹیں، اب تینوں ڈوری سے کفن باندھ لیں۲؎۔ عورت کے کفن کے لیے سب سے پہلے سینہ بند(جو سینہ سے ران تک ہوتا ہے) رکھیں پھر لفافہ پھر ازار پھر کرتہ رکھیں اس پر میت کو لٹا کر اولاً کرتہ پہنادیں اس کے بعد سرکے بالوں کے دوحصے کرکے سینہ پر ڈالدیں ؛پھر خمار سر اورچہرے پر ڈالدیں، اس کے بعد اوپر اولاً بائیں جانب سے لپیٹیں پھر داہنی جانب سے لپیٹیں اس کے بعد لفافہ بھی اسی طرح لپیٹیں اس کے بعد سینہ بند باندھیں؛ پھر تینوں ڈوریوں کو اوپر سے باندھیں۳؎۔ (۱)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ : الْمَيِّتُ يُقَمَّصُ وَيُؤَزَّرُ وَيُلَفُّ بِالثَّوْبِ الثَّالِثِ" السنن الکبری للبیھقی،باب جواز التکفین فی القمیص، حدیث نمبر:۶۹۳۷۔ "عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّﷺ سُئِلَ عَنْ الْمِسْكِ فَقَالَ هُوَ أَطْيَبُ طِيبِكُمْ" ترمذی، باب فی جاء فی المسک للمیت، حدیث نمبر:۹۱۳۔ "عن ابن عمر أنه كان يطيب الميت بالمسك ، يذر عليه ذرورا" مصنف عبدالرزاق،باب الحناط،حدیث نمبر:۶۱۴۰۔ "عن ابن مسعود ، أنه قال : يوضع الكافور على مواضع السجود" السنن الصغری للبیھقی، حدیث نمبر:۱۰۶۵۔ (۲)"عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَطُهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ" بخاری، باب التیمن فی الوضوء والغسل،حدیث نمبر:۱۶۳۔ "عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّﷺ لَهُنَّ فِي غَسْلِ ابْنَتِهِ ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا" بخاری،باب التیمن فی الوضوء والغسل،حدیث نمبر:۱۶۲۔ (۳)"تلبس القمیص، ثم الخمار فوقہ، ثم تربط الخرقۃ فوق القمیص بقی القمیص، فدل الحدیث علی کونہ فوق الخرقۃ، ومذھب الفھاء ھوالذی ذکروہ حکمۃ الخرقۃ انھا کیلا ینتشرالکفن ای عن الصدر الی السرۃ او عن الفخذ ین علی الاختلاف فی محلھا وسعتھا، وھذالحکمۃ تقتضی کونہا فوق القمیص" اعلاء السنن،باب تکفین المرأۃ: ۸/۲۴۸۔ "عَنْ أُمّ عَطِيَّة قَالَتْ " فَكَفَّنَّاهَا فِي خَمْسَة أَثْوَاب وَخَمَّرْنَاهَا كَمَا يُخَمَّر الْحَيّ" فتح الباری، لابن حجر،کیف الاشعار للمیت: ۴/۲۹۲،وهذه الزيادة صحيحة الاسناد۔