انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خدیجہؓ کے تاریخی الفاظ حضرت خدیجہؓ نے جواب میں فرمایا کہ:" كَلًّا، أَبْشِرْ. فَوَاَللَّهِ لَا يُخْزِيك اللَّهُ أَبَدًا، فَوَاَللَّهِ إنَّك لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتُكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ"(نہیں نہیں،آپ کو خوش ہونا چاہئے واللہ خدا آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا؛کیونکہ آپ ہمیشہ صلہ رحمی کرتے ہیں اورہمیشہ سچ بولتے ہیں اوراُن کے اخراجات برداشت کرتے ہیں جن کے پاس اپنے لئے کافی نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں موجود ہیں جو لوگوں میں نہیں پائی جاتیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم مہمان نواز ہیں اورحق باتوں اورنیک کاموں کی وجہ سے اگر کسی پر کوئی مصیبت آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مدد گار بن جاتے ہیں)اس تسلی وتشفی دینے کے بعد حضرت خدیجہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جواب بوڑھے ہوگئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کے سامنے تمام کیفیت بیان کی،ورقہ نے سُن کر کہا کہ یہ وہی ناموس اکبر ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اُترا تھا،کاش میں جوان ہوتا اوراُس وقت تک زندہ رہتا جب قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:"اَوَ مُخْرجوھُمْ"(کیا قوم مجھے نکال دے گی)؟ ورقہ بن نوفل بولے:ہاں دنیا میں جو کوئی رسول آیا اُس نے توحید کی تعلیم پیش کی،اُس کے ساتھ عداوت ودشمنی کا برتاؤ ابتداء میں ہوا ہے،اُس کے بعد آپ بدستور غارِ حرا میں تشریف لے جاتے رہے، چند روز تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہ ہوئی اس کو زمانہ فترۃ کہتے ہیں۔ آخر ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے مکان کو تشریف لارہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اُسی فرشتہ کو دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ کر پھر سہم گئے اورگھر آکر کپڑا اوڑھ کر لیٹ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں یہ پُر جلال آواز آئی:" يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ، قُمْ فَأَنْذِرْ ، وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ، وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ، وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ"(اے چادر میں لپٹے ہوئے اُٹھ اوران لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرا اوراپنے رب کی بڑائی و کبریائی بیان کر پاک دامنی اختیار کر اورنجاست سے یعنی شرک و بدی سے جدائی اختیار کر) اس کے بعد وحی کا سلسلہ برابر جاری رہا، ایک روز جبرئیل امین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دامنِ کوہ میں لائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خود وضو کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح وضو کیا،پھر جبرئیل امین نے نماز پڑھائی۔