انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قسطنطنیہ پرحملہ سنہ۴۸ھ میں امیرمعاویہ نے قیصر کی طاقتوں کا اندازہ کرنے کے بعد مناسب سمجھا کہ اب قیصر کے دارالسلطنت قسطنطنیہ پربحری حملہ کرکے قیصری رعب کومٹادیا جائے اور آئندہ کے لیے عیسائیوں کے حوصلوں کوایسا پست کیا جائے کہ وہ اسلامی حدود کی طرف نظر بھرکرنہ دیکھ سکیں؛ انھوں نے قسطنطنیہ پرمسلمانوں کا حملہ ہونے والا ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مشہور تھی اور سب کومعلوم تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: پہلا لشکر میری اُمت کا جوقیصر کے شہر پرحملہ آور ہوگا وہ مغفرت یافتہ ہے۔ لہٰذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عباس، حسین بن علی، ابوایوب انصاری وغیرہم وعدۂ مغفرت کے شوق میں آکر شریک لشکر ہوئے، ایک عظیم الشان لشکر مرتب ہوگیا، توسفیان بن عوف کی سپہ سالاری میں قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا، سفیان بن عوف کی ماتحتی میں اپنے بڑے بیٹے یزید کوبھی جوصائفہ فوج کا افسر تھا ایک حصہ فون کا سپہ سالار بناکر روانہ کیا، یہ لشکر بحری راستے سے روانہ ہوا اور ایک بری راستے سے بھی قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا گیا، مسلمانوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا؛ چونکہ فصیل شہر مضبوط اور شہر کا محل وقوع قدرتی طور پربے حدمضبوط تھا؛ لہٰذا یہ محاصرہ اور مسلمانوں کا حملہ کامیاب نہ ہوسکا، بعض بڑے بڑے جاں باز شیرمرد اسلامی لشکرکے شہید ہوئے، حضرت ابوایوب انصاری نے اثناءِ محاصرہ ہی میں وفات پائی اور فصیل شہر کے نیچے دفن کیے گئے، سردی کی شدت اور قدرتیح موانع کے سبب مسلمان قسطنطنیہ کوفتح کیے بغیر واپس چلے آئے، بظاہر یہ حملہ ناکام ثابت ہوا؛ کیونکہ قسطنطنیہ پرمسلمانوں کا قبضہ نہ ہوسکا؛ لیکن نتائج کے اعتبار سے مسلمانوں کوبہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی، یعنی قیصر اور قیصری لشکر نے مسلمانوں کے واپس چلے جانے کوبہت ہی غنیمت سمجھا اور اس کے بعد قیصر کی طرف سے کسی حملہ آوری کا خطرہ بالکل دور ہوگیا، وہ تمام علاقے جواب تک مسلمانوں اور عیسائیوں کے متنازعہ فیہ چلے آتے تھے، مستقل طور پرمسلمانوں کے قبضہ وتصرف میں آگئے۔ سنہ۵۰ھ میں حضرت امیرمعاویہ نے عقبہ بن نافع کومصروبرقہ وسوڈان کا سپہ سالار بناکر بھیجا اور بعد میں دس ہزار کالشکر ان کے پاس بھیج کرحکم دیا کہ مغرب کی جانب براعظم افریقہ کوفتح کرےت ہوئے چلے جائیں، بربری لوگوں کی اب تک یہ حالت رہی تھی کہ جب کبھی اسلامی لشکر ان کے علاقے میں پہنچتا وہ مسلمانوں کے فرماںبردار بن جاتے، جب مسلمانوں کوغافل اور دوسری طرف مصروف دیکھتے باغی ہوکر اپنی خود مختاری کا اعلان کردیتے، عقبہ بن نافع نے مصروبرقہ سے گذرکر مغرب الادنی یعنی ٹیونس وطرابلس پرحملہ کیا اور اس تمام علاقے کوفتح کرنے کے بعد مغرب الاوسط یعنی تلمسان والجزائر (الجیریا) کی طرف بڑھے؛ اسی سال مکران وبلوچستان کے عامل عبداللہ بن سوار نے سندھیوں کی تادیب کے لیئے سندھ پرحملہ کیا اور سندھیوں نے جوپہلے سے جنگ کی تیاری کیے ہوئے تھے، مقامِ کیقان میں جم کرمقابلہ کیا، عبداللہ بن سوار میدانِ جنگ میں شہید ہوئے، ان کے بعد حلب بن ابی صفرہ نے سندھ پرانتقاماً چڑھائی کی اور سندھ کا ایک بڑا حصہ فتح کیا۔