انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۸۰۔ہشام بن عروہؒ نام ونسب ہشام نام، ابو عبداللہ کنیت ،مشہور صحابی حضرت زبیر بن عوام کے پوتے تھے ان کے والد عروہ بھی بڑے جلیل القدر تابعی اور مدینہ کے ساتھ مشہور فقہا میں سے ایک تھے ان کے حالات اوپر گزر چکے ہیں۔ اکابر صحابہ میں انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھا تھا،ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے اور میرے بھائی محمد کو ابن عمرؓ کے پاس بھیجا گیا،انہوں نے گود میں بٹھا کر ہمارا بوسہ لیا (تاریخ خطیب :۱۴/۳۸)غالبا اسی یا کسی اورملاقات میں ابن عمرؓ نے ان کے سرپردستِ شفقت پھیر کر انہیں دعادی۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۴۸) فضل وکمال ہشام ایک جلیل القدر تابعی کے لڑکے اورایک جلیل القدر صحابی کے پوتے تھے اس لیے علم وعمل کی دولت گویا انہیں وراثۃملی تھی، ان کا شمار ان کے عہد کے علمائے تابعین میں تھا، امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق ،جلالت اورامامت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۳۸) حدیث حدیث کے ممتاز حافظ تھے ،علامہ ابن سعد ان کو ثقۃ ثبت کثیر الحدیث اور حجت اورحافظ ذہبی ،امام،حافظ اورحجت لکھتے ہیں (ابن سعد:۷،ق۲،ص۶۷) ائمہ فن ان کی وسعتِ علم کے اتنے معترف تھے کہ ابو حاتم رازی ان کو امام حدیث اوروہیب،حسن بصری اورابن سیرین کا درجہ دیتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۹) شیوخ صحابہ میں انہوں نے صرف اپنے چچا عبداللہ بن زبیرؓ اوردوسرے علماء میں عبداللہ بن عروہ،عباد بن عبداللہ،عمروبن خزیمہ عوف بن حارث بن طفیل،ابی سلمہ بن عبدالرحمن،ابن منکدر وہب بن کیسان،صالح بن ابی صالح السمان ،عبداللہ بن ابی بکر،عبدالرحمن بن سعد اور محمد بن ابراہیم وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ تلامذہ ان کے تلامذہ میں یحییٰ بن سعید انصاری،ایوب سختیانی،مالک بن انس،عبیداللہ بن عمر،ابن جریج،سفیان ثوری،لیث بن سعد،سفیان بن عینیہ،یحییٰ بن سعید بن القطان اوروکیع ابن جراح لائق ذکر ہیں۔ (ایضاً) فقہ ان کے والد عروہ مدینہ کے سات مشہور فقہاء میں سے تھے،ان کے تفقہ سے ان کو وافر حصہ ملا تھا،حافظ ذہبی ان کو فقیہ لکھتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۹) زہد وورع علم کے ساتھ عمل واخلاق سے بھی آراستہ تھے،ابن حبان ان کو فاضل اورورع لکھتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۹) تہذیب لسان نہایت مہذب اورشائستہ تھے،ان کی زبان سے کبھی کوئی بے جا کلمہ نہ نکلتا تھا، منذر بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے ہشام کی زبان سے ایک مرتبہ کے سوا کبھی کوئی بُرا کلمہ نہیں سُنا۔ (تاریخ خطیب :۱۴/۱۳۸) فیاضی نہایت فیاض اورسیر چشم تھے،ان کی فیاضی اعتدال سے اتنی بڑھ گئی تھی کہ ایک لاکھ کے مقروض ہوگئے تھے۔ بغداد کا سفر اس کی ادائیگی کی فکر میں وہ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی کے پاس بغداد گئے اس نے بڑا خیر مقدم کیا،انہوں نے اپنی غرض پیش کی،اس نے پوچھا کتنا قرض ہے،فرمایا ایک لاکھ منصور نے کہا آپ اس افضل وکمال کے باوجود اتنا بڑا قرض لے لیتے ہیں،جس کی ادائیگی آپ کے امکان میں نہیں،انہوں نے کہا خاندان کے بہت سے لڑکے جوان ہوگئے تھے مجھے خوف تھا کہ اگر ان کی شادی نہ کردی گئی تو وہ بے خانماں ہوجائیں گے، اس لیے میں نے خدا اورامیر المومنین کے اعتماد پر ان کا گھر بسا کر ان کا ٹھکانہ کردیا اوران کی جانب سے ولیمہ کیا،یہ سارا قرض اسی کا ہے،ابو جعفر منصور نے حیرت کے لہجہ میں دو مرتبہ ایک لاکھ ایک لاکھ کہا اوردس ہزار روپیہ انہیں دینے کا حکم دیا،انہوں نے کہا امیر المومنین جو کچھ دے رہے ہیں وہ خوش دلی سے دے رہے ہیں (یا جبر سے) میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص خوش دلی سے عطیہ دیتا ہے،تو اس میں دینے والے اورلینے والے دونوں کو برکت ہوتی ہے،منصور نے کہا میں نے خوش دلی سے دیا ہے۔ (تاریخ خطیب:۱۴/۳۹) وفات بغداد ہی میں ۱۴۶ میں وفات پائی، اتفاق سے اس دن عباسیوں کے ایک بڑے جلیل القدر اورنامور غلام کا بھی انتقال ہوگیا تھا،اس لیے دونوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھائے گئے،لیکن منصورنے ہشام کے رتبہ کی وجہ سے ان کے جنازہ کی نماز پہلے پڑھائی ہارون کی ماں خیز ران کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔ (ایضاً،ص۴۱،ابن سعد،ج۷،ق ۲۲،ص۶۷)