انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اصمحہ نجاشی شاہ حبشہ رحمہ اللہ نام ونسب اصمحہ نام، باپ کا نام ابحر نجاشی شاہی لقب حبشہ (ابی سینا) کے بادشاہ تھے، عرب میں عطیہ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ (اصابہ، جلد:۱، ذکراصمحہ) مسلمانوں کی پہلی ہجرت گاہ قریش کے ظلم وستم کا بادل جب پیہم برس کرنہ کھلا تورحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوحبش ہجرت کرجانے کا حکم دیا؛ چنانچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ سے حبشہ ہجرت کرگئی، حبشہ میں اس وقت یہی اصمحۃ النجاشی بادشاہ تھے، جن کے سایۂ عاطفت میں پہنچ کرجان نثارانِ اسلام نے اطمینان کا سانس لیا، نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا، قریش کواس احسان وسلوک کا حال معلوم ہوا توبڑا پیچ وتاب کھایا، آخر میں طے کیا کہ شاہ نجاشی کے ایک وفد جائے اور یہ عرضداشت پیش کرے کہ ہمارے مجرموں (مسلمانوں) کوہمارے حوالے کردے، اس مہم کے لیے عمروبن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ منتخب ہوئے یہ لوگ حبشہ پہنچے توپہلے تمام پادریوں سے ملے اور تحفے وتحائف پیش کیے اور مقصد کی تکمیل کے لیے ان کوہموار کرلیا؛ پھرشاہ نجاشی اصمحہ کے دربار میں بازیابی حاصل کی اور نذرانہ پیش کیا، نجاشی نے آمد کی وجہ دریافت کی؛ انھوں نے اپنا مطالبہ ظاہر کیا، نجاشی نے پادریوں سے دریافت کیا؛ انہوں نے بھی یک زبان ہوکر ان کے مطالبہ کی تائید کی؛ لیکن شاہ نجاشی نے کہا: میں ان لوگوں سے خود بالمشافہ گفتگو کرونگا؛ اگروہ لوگ جیسا کہ تم کہتے ہو مجرم ثابت ہوئے توان کوواپس کردونگا؛ ورنہ جومیری پناہ میں آگیا ہے اس پرظلم روا نہیں رکھا جاسکتا، مسلمان دربار میں بلائے گئے تواصمحہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے کونسا دین اختیار کیا ہے، جو نہ نصرانیت ہے نہ بت پرستی اور نہ کسی دوسری قوم کا دین ہے، مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے وکالت کی اوربرسرِدربار ایک بہت ہی مؤثر اور دلنشین تقریر کی، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور اسلام کی اخلاقی خوبیاں بیان کیں، اس کے بعد شاہ نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے قرآن کا کچھ حصہ پڑھنے کی فرمائش کی؛ انھوں نے سورۂ مریم کی چند ابتدائی آیتیں تلاوت کیں، نجاشی پررقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اس کے بعد انہوں نے ان فدائیانِ اسلام کوقریش کے حوالے کرنے سے صاف انکار کردیا اور مسلمان زبانِ حال سے یہ شعر پڑھتے ہوئے دربار سے نکل آئے ؎ تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا جب قریش کے وفد کوپہلے روز ناکامیابی ہوئی توانھوں نے دوسرے روز پھرکسی طرح دربار میں رسائی حاصل کی اور شاہ نجاشی کے سامنے عرض داشت پیش کی کہ اُن مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق دریافت فرمایا جائے، مسلمان پھربلائے گئے، ان کے لیے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا؛اگرسچ کہتے ہیں توشاہ نجاشی ناخوش ہوتا ہے اور اس کے خلاف کہتے ہیں تودین کے وقار کوصدمہ پہنچتا ہے، آخر کار انہوں نے یہ طے کیا کہ چاہے جوکچھ بھی ہو انھیں سچ ہی بولنا چاہیے، اس روز بھی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ہی گفتگو کے لیے منتخب ہوئے؛ انہوں نے فرمایا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اس کے کلمہ اور اس کی روح ہیں، نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اُٹھایا اور کہا: خدا کی قسم! حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں، دربار کے بطریق اور پادری اس پربہت ناراض ہوئے؛ لیکن ناراضگی کا ان پرکوئی اثر نہ ہوا، قریش نے جوتحفے تحائف نجاشی کے حضور میں پیش کیے تھے، نجاشی نے سب واپس کردیے اور وفد وہاں سے نامراد مکہ واپس چلا آیا۔ اسلام یہ واقعہ بجائے خود نجاشی کے اسلام پرشاہد ہے؛ لیکن اس کے علاوہ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ: قَالَ النَّجَاشِيُّ أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمُسْلِمِ يَمُوتُ فِي بِلَادِ الشِّرْكِ،حدیث نمبر:۲۷۹۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:نجاشی نے کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک اللہ کے رسول ہیں اور وہی نبی ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پربیعتِ اسلام بھی کی تھی۔ خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ملوک وسلاطین کودعوتِ اسلام بھیجی توشاہ نجاشی کے پاس بھی اپنا قاصد بھیجا، شاہ نجاشی نے آپ کے قاصد کا پرتپاک خیرمقدم کیا، آپ کی رسالت کا اقرار کیا اور اپنے لڑکے ارمیٰ کوآپ کی خدمت کے لیے بھیجا اور لکھا کہ اگرسلطنت کی ذمہ داری کا بوجھ میرے اُوپر نہ ہوتا تومیں خود بھی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کفش برداری کی سعادت حاصل کرتا۔ (ابوداؤد) وفات مسلمانوں کے اس غمخوار اور محسن نے سنہ۹ھ میں داعیٔ اجل کولبیک کہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کووحی کے ذریعہ اسی روز ان کی موت کی اطلاع مل گئی (بخاری اور تمام کتب حدیث میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواسی روز ان کی موت کی خبر مل گئی تھی؛ اسی روز غزوۂ موتہ میں بھی آپ کوسپہ سالارانِ اسلام کی شہادت اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اس میں فتح کی خبر بھی کسی مادی ذریعہ اطلاع کے بغیر پہنچ چکی تھی اور آپ نے ان کے بارے میں جوکچھ فرمایا تھا، بعد میں حرف بحرف اس کی تصدیق ہوئی) اور آپ نے بڑے رنج وغم کے ساتھ مدینہ میں ان کی موت کا اعلان کیا، فرمایا: مسلمانو! تمہارے برادرِ صالح اصمحہ نے انتقال کیا، ان کے لیے دُعا واستغفار کر و؛ پھرصحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی (غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے بارے میں فقہاء کے درمیان تھوڑا سااختلاف ہے، بعض لوگ اس کوعام حکم سمجھتے ہیں اور اب بھی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کوجائز کہتے ہیں اور بعض اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت کی خصوصیت بتلاتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگرایسی ہی کسی اجنبی جگہ میں کسی مسلمان کا انتقال ہوتواس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جاسکتی ہے، مسلم کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ نجاشی نہیں ہیں جن کی آپ نے نمازِ جنازہ پڑھی تھی؛ لیکن حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ نے اسے راوی کا وہم بتایا ہے)۔ فضائل تفسیر کی روایتوں میں ہے کہ قرآن کی ان آیاتمیں دوسرے اہلِ کتاب کے ساتھ شاہ نجاشی بھی مراد لیے گئے ہیں: وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَاأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَاأُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَايَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔ (آل عمران:۱۹۹) ترجمہ: اور بے شک اہلِ کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جواللہ کے آگے عجزونیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پربھی ایمان رکھتے ہیں، اُس کتاب پربھی جوتم پرنازل کی گئی ہے اور اُس پربھی جواُن پرنازل کی گئی تھی اور اللہ کی آیتوں کوتھوڑی سی قیمت لے کربیچ نہیں ڈالتے، یہ وہ لوگ ہیں جواپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں، بیشک اللہ حساب جلد چکانے والا ہے۔ (توضیح القرآن:۱/۲۴۱، مفتی تقی عثمانی) وَإِذَاسَمِعُوا مَاأُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ۔ (المائدۃ:۸۳) ترجمہ:اور جب لوگ وہ کلام سنتے ہیں جورسول پرنازل ہوا ہے توچونکہ انہوں نے حق کوپہچان لیا ہوتا ہے، اس لیے تم ان کی آنکھوں کودیکھوگے کہ وہ آنسوؤں سے بہہ رہی ہیں (اور) وہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں؛ لہٰذا گواہی دنیے والوں کے ساتھ ہمارا نام بھی لکھ لیجئے۔ (توضیح القرآن:۱/۳۶۲، مفتی تقی عثمانی) میں دوسرے اہلِ کتاب کے ساتھ شاہ نجاشی بھی مراد لیے گئے ہیں۔ اخلاق شاہانہ اوصاف، عدل وانصاف، رحم وکرم اور رعایا پروری کے علاوہ عام انسانی اخلاق واوصاف سے بھی متصف تھے، اپنے ملک میں مظلوم وستم رسیدہ مسلمانوں کے ہاتھ انہوں نے جوحسن سلوک کیا، اس احسان سے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ گراں بار رہے گی۔