انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بالاخانے یہ بالاخانے کن کے لیے ہوں گے: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ۔ (الزمر:۲۰) ترجمہ:لیکن جولوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے (جنت کے) بالاخانے ہیں جن کے اوپر اور بالا خانے ہیں جوبنے بنائے تیار ہیں۔ حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت میں کچھ ایسے بالاخانے ہیں کہ ان کا باہر اندر سے اور اندر باہر سے نظر آئے گا، ایک دیہاتی نے کھڑے ہوکر پوچھا: کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کس کے لیے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: اس کے لیے جوپاکیزہ گفتگو کریگا اور کھانا کھلائیگا اور ہمیشہ روزہ رکھے گا اور اس وقت جب لوگ سوتے ہیں یہ رات کے وقت نماز پڑھے گا۔ (ترمذی:۱۹۸۴، کتاب البروالصلۃ:۵۳۔ حادی الارواح:۱۹۱) فائدہ: اس حدیث کی تشریح درجِ ذیل حدیث کے ساتھ کچھ اس طرح سے ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں کچھ ایسے بالاخانے ہوں گے کہ جب اس کامکین اس کے اندر ہوگا تواس کواس کا کوئی خوف نہیں ہوگا کہ اس کے پیچھے کیا ہے (کیونکہ اس کواندر سے باہر نظر آتا ہوگا) اور اگراس کے باہر ہوگا تواس کواس کا خوف نہیں ہوگا کہ اندر (بالاخانے میں) کیا ہے؟ کیونکہ اس کوبالاخانہ کے باہر سے بالاخانے کا اندرونی حصہ نظر آتا ہوگا؛ عرض کیا گیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کن کے لیے ہوں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا جواچھے بول بولے گا، مسلسل روزے رکھے گا اور کھانا کھلائے گا، سلام کوپھیلائے گا او رنماز پڑھے گا جب لوگ سورہے ہیں؛ عرض کیا گیا اچھے بول کیا ہیں؟ارشاد فرمایا: سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُوَلَاأَکْبَرُ إِلَّااللہ۔ کیونکہ یہ کلمات قیامت کے دن اس حالت میں آئیں گے کہ کچھ آگے ہوں گے اور کچھ پہلوؤں میں اور کچھ پیچھے، عرض کیا گیا مسلسل روزے رکھنا کیسا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جوماہِ رمضان کے روزے رکھے گا پھرا سکے بعد ایک اور ماہِ رمضان پایا تواس کے بھی روزے رکھے (اسی طرح سے ہرآنے والے رمضان کے روزے رکھتا رہا یہ مسلسل روزے رکھنا ہے) عرض کیا گیا: کھانا کھلانا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: جس نے اپنے بال بچوں کی کفالت کی اور ان کوکھلاتا رہا؛ عرض کیا گیا: سلام پھیلانا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: اپنے بھائی (مسلمان) سے مصافحہ کرنا اور سلام کرنا؛ عرض کیا گیا جب لوگ سوتے ہوں اس وقت کی نماز کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: عشاء کی نماز (پڑھنا)۔ (البعث والنشور:۲۸۰۔ ابن عدی:۲/۷۹۵) غرفات والے افق میں چمکنے والے ستارے کی طرح: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا يَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ۔ (بخاری، كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ،حدیث نمبر:۳۰۱۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: (ادنی جنت درجہ کے) جنت والے، بالاخانوں والے جنتیوں کواس طرح سے دیکھیں گے جس طرح سے لوگ (دنیا میں) افق آسمان پردوردراز ستارے کودیکھتے ہیں۔ غرفہ (بالاخانہ) کس چیز سے بنایا گیا ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا۔ (الفرقان:۷۵) ترجمہ:ایسے لوگوں کوبالاخانے ملیں گے بوجہ ان کے ثابت قدم رہنے کے (دکھوں اور آزمائشوں میں)۔ اس ارشاد کی تفسیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الْغُرْفَةُ مِنْ يَاقُوتَةِ حَمْرَاءَ وَزَبَرْجَدَةٍ خَضْرَاءَ وَدُرَّةٍ بَيْضَاءَ لَيْسَ فِيهَا فَصْمٌ وَلاَوَصْمٌ۔ (بدورالسافرہ:۱۷۸۷، بحوالہ حکیم ترمذی، نوادرالاصول۔ تذکرۃ القرطبی:۲/۴۶۲) ترجمہ:یہ غرفہ (بالاخانہ) سرخ یاقوت اور سبززبرجد اور سفید چمکدار موتی کا ہوگا ان میں نہ کٹاؤ ہوگا نہ جوڑاؤ ہوگا (بلکہ یہ سب موتی ایک ہی معلوم ہوں گے)۔ ادنی جنتی کے غرفہ کی شان: حدیث: حضرت عتبہ بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، لَرَجُلٌ لَهُ دَارٌ مِنْ لُؤْلُؤَةٍ وَاحِدَةٍ، غُرَفُهَا وَأَبْوَابُهَا۔ (کتاب الزہد ہنادبن سری:۱۲۵۔ ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۲۹) ترجمہ:ادنی درجہ کا جنتی وہ شخص ہوگا جس کا ایک گھر ہوگا ایک موتی سے اس کے بالاخانے اور دوازے بنے ہوں گے۔ ایک ستون پربالاخانہ: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَعُمُدًا مِنْ يَاقُوتٍ عَلَيْهَا غُرَفَۃ مِنْ زَبَرْجَدٍ لَهَا أَبْوَابُہَا مُفَتَّحَةٌ تُضِيءُ كَمَا يُضِيءُ الْكَوْكَبُ الدُّرِّيُّ قُلْنَا: يَارَسُولُ اللهِ! مَنْ يَسْكُنُهَا؟ قَالَ: الْمُتَحَابُّونَ فِي اللهِ، وَالْمُتَبَاذِلُوْنَ فِي اللهِ وَالْمُتَلاَقُونَ فِي اللهِ۔ (البزار، ابوالشیخ، البدورالسافرہ:۱۷۹۵۔ وصف الفردوس:۳۳) ترجمہ:جنت میں یاقوت کا ایک ستون ہوگا اس پرزبرجد کا ایک غرفہ ہوگا، اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے، وہ ایسے چمکتا ہوگا جیسے چمکدار ستارہ چمکتا ہے، ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس میں کون رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ لوگ جواللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہوں گے، اللہ کے لیے آپس میں خرچ کرنے والے ہوں گے اور آپس میں اللہ کی رضا کے لیے ملاقات کرتے ہوں گے۔ ایسے بالاخانے جونہ اوپر سے لٹکائے گئے ہیں نہ ان کے نیچے ستون ہیں: حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إنَّ فِي الجَنَّةِ لَغُرَفاً لَيْسَ لَهَامَعَالِيقُ مِنْ فَوْقِهَا وَلاَعمَدٌ مِنْ تَحْتِهَا، قِيلَ: يَارَسُولَ اللّه! كَيْفَ يَدْخُلُهَا أَهْلُهَا؟ قال: يَدْخُلُونَهَا أَشْبَاهَ الطَّيْرِ، قيل: يَارَسُولَ اللّهِ لِمَنْ ھِیَ؟ قال: لِأَهْلِ الأَسْقَامِ وَالأَوْجَاعِ وَالْبَلْوَىٰ۔ (زاہربن طاہربن محمدبن محمدالشحامی ابوالقاسم، البدورالسافرہ:۱۷۹۷) ترجمہ:جنت میں کچھ غرفات ایسے ہیں جونہ تواوپر سے کسی چیز کے ساتھ لٹکائے گئے ہیں اور نہ ان کے نیچے سے کوئی ستون ہوگا؛ عر ض کیا گیا یارسول اللہ! ان غرفات والے ان میں کیسے داخل ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنتی ان میں پرندوں کی طرح داخل ہوں گے؛عرض کیا گیا یارسول اللہ! یہ کن کے لیے ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: بیماریوں والے، دردوں والے اور مصیبت والے (لوگوں) کے لیے۔ فائدہ: صفۃ الجنۃ ابن کثیر کے محشی نے معالیق کا معنی چھتوں کے ساتھ کیا ہے۔ چار ہزار خدمتگار لڑکیوں والا بالاخانہ: حضرت ابن وہب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک غرفہ ایسا ہے جس کا نام سخا ہے، جب اللہ کا ولی اس میں جانے کا ارادہ کریگا توحضرت جبریل اس غرفہ کے پاس جاکر (اس جنتی کواوپر چڑھانے کے لیے) پکاریں گے تووہ جبریل کی انگلیوں کے سامنے کھڑا ہوجائے گا (انگلیوں کے سامنے اس لیے کھڑا ہوگا کہ حضرت جبریل علیہ السلام کا قد بہت ہی بڑا ہے اور اس کا قد اتنا ہی چھوٹا ہوگا) اس غرفہ (بالاخانہ) میں چارہزار خدمت کے لائق لڑکیاں ہوں گی جوانپے دامن اور بالوں کوناز وانداز سے اٹھاتے ہوئے چلیں گی اور وہ عود کی انگیٹھیوں سے خوشبوئیں حاصل کریں گی۔ (ابونعیم، فی الحلیۃ۔ البدورالسافرہ:۱۷۹۹) سترہزار بالاخانے: حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: اللہ کی رضا جوئی میں آپس میں محبت کرنے والے (مسلمان) سرخ یاقوت کے ایک ستون پرفائز ہوں گے، اس ستون کے سرے پرسترہزار بالاخانے (غرفات) ہوں گے ان کا حسن جنت والوں کے لیے ایسے روشن ہوگا جیسے دنیاوالوں کے لیے سورج چمکتا ہے، جنتی ایک دوسرے سے کہیں گے ہمارے ساتھ چلو؛ تاکہ ہم اللہ عزوجل کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کی زیارت کرآئیں؛ پس جب یہ لوگ ان کوجھانک کردیکھیں گے توان کا حسن جنت والوں کے سامنے ایسے چمکے گا جس طرح سے سورج دنیا والوں کے لیے چمکتا ہے، ان پرسندس کا سبزلباس ہوگا، ان کی پیشانیوں پرلکھا ہوگا: یہ لوگ اللہ عزوجل کی رضا اور محبت کی تلاش کے لیے آپس میں محبت کرتے تھے۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۶۴۔ زہد ابن المبارک:۵۲۲۔ حلیۃ الاولیاء:۵/۳۸۰) فائدہ: یہ حدیث امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح سے روایت کی ہے کہ آپس میں صرف اللہ کی رضا کے لیے محبت کرنے والے (اپنے اپنے) سرخ یاقوت کے ستون پرہوں گے، اس ستون کے اوپرسترہزار بالاخانے ہوں گے یہ دوسرے جنتیوں کودیکھتے ہوں گے، ان میں سے جب کوئی جھانکے گا تواس کا حسن جنتیوں کے گھروں کوخوب روشن کردیگا جس طرح سے سورج اپنی روشنی کے ساتھ دنیاوالوں کے گھروں کوروشن کردیتا ہے، آپ نے فرمایاکہ پھرجنت والے (دوسرے جنتیوں سے) کہیں گے ہمارے ساتھ ان حضرات کے پاس چلو! جوآپس میں صرف اللہ کے لیے محبت کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چنانچہ یہ جنتی (اپنی اپنی جنتوں سے) نکلیں گے اور ان کے چہروں کوچودھویں رات کے چاند کی طرح (روشن) دیکھیں گے، ان پرسبزلباس ہوں گے، ان کے چہروں پرلکھا ہوگا یہ ہیں خالص اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱۵۹۴۸) بالاخانوں میں رہنے والے خاص حضرات: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا يَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنْ الْمَشْرِقِ أَوْالْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَابَيْنَهُمْ قَالُوا يَارَسُولَ اللَّهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الْأَنْبِيَاءِ لَايَبْلُغُهَا غَيْرُهُمْ قَالَ بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ رِجَالٌ آمَنُوا بِاللَّهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِينَ۔ (بخاری، كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ،حدیث نمبر:۳۰۱۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنتی بالاخانہ والوں کواپنے اوپر سے ایسے دیکھیں گے جیسے تم مشرق یامغرب کے افق میں دوردراز ہلکی ہلکی روشنی کرنے والے ستاروں کودیکھتے ہو یہ فرق ان کے درمیان اعمالِ صالحہ کی وجہ سے ہوگا، صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! کیا یہ انبیاءکرام کی منازَ ہوں گی کہ ان تک کوئی اور نہیں پہنچ سکے گا؟ توجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں پہنچ سکے گا؟ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے (ان میں) وہ لوگ جائیں گے جواللہ پرایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی۔ خیمے: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ۔ (الرحمن:۷۲) ترجمہ:حوریں ہیں رکی رہنے والیاں خیموں میں۔ ساٹھ میل کا خول دار خیمہ: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ وَاحِدَةٍ مُجَوَّفَةٍ طُولُهَا سِتُّونَ مِيلًا لِلْمُؤْمِنِ فِيهَا أَهْلُونَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ الْمُؤْمِنُ فَلَايَرَى بَعْضُهُمْ بَعْضًا۔ (مسلم، كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا،بَاب فِي صِفَةِ خِيَامِ الْجَنَّةِ وَمَالِلْمُؤْمِنِينَ فِيهَا مِنْ الْأَهْلِينَ،حدیث نمبر:۵۰۷۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنت میں مؤمن کے لیے ایک ہی موتی کا ایک خولدار خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل تک ہوگی اس میں مؤمن کی بیویاں ہوں گی، مؤمن ان سب کے پاس جاکر صحبت کریگا وہ بیویاں ایک دوسرے کو (اس حالت میں) نہیں دیکھ سکیں گی۔ فائدہ:یہ خیمے نہ توبالاخانے ہوں گے اور نہ محلات بلکہ یہ باغات میں اور نہروں کے کنارے پرقائم کئے گئے ہوں گے۔ (حادی الارواح:۲۷۵) خیمے کیوں لگائے گئے: حضرت ابوسلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حورعین ازسرِنوپیدا کی جاتی ہیں جب اس کی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے توفرشتے ان پرخیمے نصب کردیتے ہیں۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۱۱) بعض حضرات فرماتے ہیں کہ خیمے اس وقت نصب کرتے ہیں جب وہ جوان ہوتی ہے؛ کیونکہ نوجوان لڑکی کی عادت یہ ہے کہ وہ پردے کے ساتھ علیحدگی کوپسند کرتی ہے؛ یہاں تک کہ اس کواس کا خاوند لے جائے؛ اسی طرح سے اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بھی حوروں کوپیدا کیا اور ان کوخیموں کے پردوں میں پابند کردیا؛ یہاں تک کہ ان کواپنے اولیاء (دوستوں) کے ساتھ جنت میں ملادے۔ (حادی الارواح:۲۷۶) پسندیدہ بیویوں کے خیمے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمان کی ایک بہت پسندیدہ بیوی ہوگی اور ہرپسندیدہ بیویوں کے لیے ایک خیمہ ہوگا اور ہرخیمہ کے چار دروازے ہوں گے، ہردروازے سے روزانہ ایک ہدیہ، تحفہ اور کرامت اس بیوی کے پاس پہنچے گا جو اس سے پہلے حاصل نہ ہوا ہوگا، یہ بیویاں نہ تو (خاوندوں کے سامنے) اکڑفون دکھانے والی ہوں گی نہ اونچا بولنے والی ہوں گی (نہ ان کے مونہوں سے) بدبو آئے گی، نہ نافرمان ہوں گی یہ حورعین ہوں گی چھپائے ہوئے لعل کی طرح۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۱۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خیمہ خول دار ہوگا آٹھ کلومیٹر میں، اس کے (دروازوں کے) چار ہمار سونے کے پٹ (کواڑ) ہوں گے۔ (ابن ابی شیبہ:۱۵۹۰۵۔ زیادات الزہد ابن المبارک:۳۳۹) حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خیمہ ایک ہی گوہر کا ہوگا جس کے ستردروازے ہوں گے جوایک ہی گوہر سے بنائے گئے ہوں گے۔ (زوائد زہد ابن المبارک:۲۵۰۔ تفسیرطبری:۲۷/۸۴) خیمہ کی بلندی: حدیث: حضرت عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الْخَيْمَةُ دُرَّةٌ مُجَوَّفَةٌ طُولُهَا فِي السَّمَاءِ سِتُّونَ مِيلًا فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ لَايَرَاهُمْ الْآخَرُونَ (یَطُوْفُوْنَ عَلَیْہِمْ الْمُؤْمِنْ) فَلَایُوَیٰ بَعْضُہُمْ بَعْضًا۔ (البدورالسافرہ:۱۹۹۴۔ ابن ابی الدنیا:۳۱۷۔ بخاری:۴۸۷۹) ترجمہ:خیمہ خولدار موتی لعل کا ہے اس کی لمبائی اوپر کی طرف ساٹھ میل ہے اس کے ہرزاویہ میں اہلِ خانہ (بیویاں، غلام اور لڑکے) ہیں جن کودوسرے (زاویہ والے) نہیں دیکھتے، ان کے پاس جنتی جایا کریگا دوسری بیویاں وغیرہ (اس حالت میں) ان کونہیں دیکھ سکیں گی۔ خیمے کیسے ہوں گے: حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں نے سنا ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ (حوریں ہوں گی خیموں میں ٹہری ہوئیں) یہ خیمے کیا ہیں؟ توآنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: والذی نفسی بیدہ ان الخیمۃ من خیام الجنۃ لمن لؤلؤۃ واحدۃ مجوفۃ اربع فراسخ فی اربع فراسخ مکللۃ باگیاقوت والزبرجد لہا سبعون بابا من ذہب (وصف الفردوس:۳۸) ترجمہ:مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت کے خیموں میں سے ایک خیمہ ایک ہی گوہر کا ہوگا اندر سے خولدار بتیس کلومیٹرلمبا بتیس کلومیٹر چوڑا (یعنی لمبائی اور چوڑائی برابر ہوگی) یاقوت اور زبرجد کا (اس خیمہ کو)تاج پہنایا گیا ہوگا، اس کے سونے کے ستردروازے ہوں گے۔ خیموں کی نعمتیں اور عیش: حضرت عبدالملک (ابن حبیب القرطبی رحمہ اللہ) فرماتے ہیں مجھے بعض لوگوں نے بیان کیا کہ جنت کے خیموں میں سے ہرخیمہ میں جوخولدار گوہر سے بنایا گیا ہوگا اس کا طویل بتیس بتیس کلومیٹر کی چوڑائی میں ہوگا اور اتنا ہی اونچا ہوگا جس پرگوہر اور یاقوت کا کام کیا گیا ہوگا، ہرتخت پربہت سے رنگین بستر ترتیب دئے گئے ہوں گے جوایک دوسرے کے اوپرسجائے ہوئے ہوں گے اور ہرتخت کے سامنے ایک کپڑا ہوگا جس نے خیمہ کوپردہ میں کیا ہوگا یہ گوہر، یاقوت اور زبرجد سے سونے اور چاندی کی تاروں میں بنایا گیا ہوگا، ہرتخت پرحورعین میں سے ایک بیوی جلوہ افروز ہوگی جس کا نور سورج کے نور کوماند کررہا ہوگا، ہربیوی کے ساتھ سترلونڈیاں اور سترغلام بھی ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ (الطور:۲۴) (اور ان کے پاس ایسے لڑکے آئیں جائیں گے جوخالص ان ہی کے لیے ہوں گے گویا وہ حفاظت سے رکھے ہوئے موتی ہیں) اور ہرتخت کے سامنے گوہر کی ایک کرسی ہوگی جس پر سے ولی اللہ چڑھ کرتخت پربیٹھے گا اور اپنے خیمہ کی بنیاد تک ایک سفید راستہ اور ایک سرخ راستہ اور ایک سبزراستہ دیکھے گا ان کا نور اتنا تیز ہوگا کہ آنکھوں کی روشنی کوماند کرسکتا ہے؛ پھریہ اپنی بیوی سے معانقہ کریگا اور اس سے سترسال کی مقدار کے برابر لطف اندوز ہوگا، اس کی خواہش جماع اور اس کی شدت طلب کم نہ ہوگی یہ اس زوجہ سے دوسری کی طرف جائے گا؛ یہاں تک کہ جب تک اس کا نفس خواہش کرتا رہیگا اور آنکھیں لذت اُٹھاتی رہیں گی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ (وصف الفردوس:۴۰) قبہ: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً، مَنْ ينْصَبُ لَهُ قُبَّةٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَيَاقُوتٍ وَزَبَرْجَدٍ، كَمَا بَيْنَ الْجَابِيَةِ وَصَنْعَاءَ۔ (وصف الفردوس:۳۷۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۰۶) ترجمہ:ادنی درجہ کے جنتی کا مرتبہ یہ ہوگا کہ اس کے لیے ایک قبہ لؤلؤ اور یاقوت اور زبرجد کا تیار کیا جائے گا(جوطول میں) جابیہ سے صنعاء جتنا ہوگا۔ فائدہ: جابیہ ملکِ شام میں مشہور شہر دمشق کے قریب ایک شہر ہے اور صنعاء ملک یمن کا دارالخلافہ ہے۔