انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافتِ راشدہ کا نصف اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدیق اکبرؓ اورفاروق اعظمؓ کا عہد اسلام کی دینی و مذہبی حکومت یعنی خلافت راشدہ کا نصف اول کہا جاسکتا ہے، نصف آخر میں عثمان غنیؓ ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد حکومت ہے،خلافتِ راشدہ کے نصف اول کا حال بیان ہوچکا ہے،آئندہ حضرت عثمان غنیؓ کے حالات سے خلافت راشدہ کا نصفِ آخر شروع ہونے والا ہے،مذکورہ نصف اول کی خصوصیات میں ایک بات یہ ہے کہ کسی جگہ بھی دین کے مقابلے میں دنیا مقدم نظر نہیں آتی،اعلائے کلمۃ اللہ کے مقابلے میں کسی شخص کا وہم بھی کسی ذات غرض ،ذاتی منفعت ،قوم یا قبیلہ کے بے جاحمایت کسی رشتہ داری یا دوستی کے پاس ولحاظ کی طرف نہیں جاتا، خالص اسلامی رنگ اورخالص عربی تمدن ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکوں میں شریک ہونے والے حضرات بکثرت موجود تھے، وہی سب کی نگاہوں میں واجب التکریم سمجھے جاتے تھے اور ان کا نمونہ سب کے لئے مشعلِ راہ تھا، مسلمانوں میں نااتفاقی اورپھوٹ کا نام ونشان بھی نظر نہیں آتا تھا،میدان جنگ میں مسجدوں میں قیام گاہوں میں شہروں میں مسافرت کے قافلوں میں غرض ہر جگہ جہاں جہاں مسلمان تھے، اتفاق،اتحاد یک جہتی اور ایثار کے دریا بہتے ہوئے نظر آتے تھے،حسد خود غرضی اورعداوت کا جمعیت اسلامی کے اندر کہیں پتہ نہ چلتا تھا،مسلمانوں کا ہر ایک کام خدائے تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے تھا وہ اپنے سادگی کے مقابلے میں ایرانیوں اور رومیوں کے سامان تکلف اوراسباب زینت کو نفرت وحقار ت کی نظر سے دیکھتے تھے، مسلمانوں کے اندر کوئی اختلافی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا ،ہر شخص اپنے آپ کو ہر وقت خدائے تعالیٰ کی جناب میں حاضر سمجھتا اوراپنے قلب کو ہمہ وقت گداز پاتا تھا،غرض یہ وہ زمانہ تھا جس میں ہر ساعت اور ہر لمحۂ رشد وسعادت کے سوا اورکچھ نظر نہیں آتا،باقی نصف آخر بھی بہت اچھا اور رُشد وسعادت ہی کا زمانہ ہے،لیکن وہ اس نصف اول کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا،اس نصف اول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا پورا پورا نمونہ اورعکس موجود نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی ہمت رضائے الہی کے حصول اوراعلائے کلمۃ اللہ کی کوشش میں صرف ہوتی تھی ،مال و دولت کا حاصل کرنا اور عیش وجسمانی کی طلب میں ساعی رہنا، قطعاً مفقود ومعدوم تھا،خلیفہ وقت خلیفہ ہونے سے پیشتر جس طرح پیوند لگے ہوئے کپڑے استعمال کرتا تھا، اسی طرح خلیفہ اور تمام اسلامی دنیا کا شہنشاہ ہوجانے کے بعد بھی اس کے ملبوس میں کوئی فرق نہ ہوتا تھا، وہی پیوند جو مرتبہ خلافت پر فائز ہونے سے پہلے تھے بعد میں بھی برابر دیکھے جاتے تھے ،مسلمانوں نے عراق وشام و مصر کے سرسبز وزرخیر علاقوں کو فتح کیا ،ایرانی شہروں پر قابض ہوئے،لیکن فاروق اعظمؓ کے آخر عہد خلافت تک ان فاتح مسلمانوں نے شام کے عیسائیوں اورایران کے مجوسیوں کی عیش پرستی وراحت طلبی سے رتی برابر بھی اثر قبول نہیں کیا، عراق و فارس کو مسلمانوں نے فتح کیا، لیکن اس فاتح فوج کا قیام کوفہ و بصرہ میں چھپروں اورخیموں کے اندر رہا، اسی طرح شام کے ملک میں اسلامی لشکر نے شام کے شہروں کو اپنا قیام گاہ نہیں بنایا، بلکہ وہ موصل ودمشق کے صحراؤں اورپہاڑوں میں شہروں اور شہریوں کے عیش وتکلفات سے بے خبر قیام پذیر رہتے، اوراپنی اس سپاہیانہ زندگی اورصعوبت کشی پر مسرور ومطمئن تھے جس لشکر نے مصر کو فتح کیا،اس نے مصر کے سامان عیش رکھنے والے شہروں کو اپنے قیام کے لئے منتخب نہیں کیا؛بلکہ فسطاط کی چھاؤنی کو جو آج شہر قاہرہ کی شکل میں تبدیل ہوگئی ہے،پسند کیا صدیق اکبرؓ اورفاروق اعظمؓ نہ صرف لوگوں کو زاہدانہ زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیتے تھے ؛بلکہ خود اس کے اوپر عمل کرکے بھی انہوں نے اپنا بہترین نمونہ لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ بیت المال کا ایک پیسہ بھی وہ بے جا خرچ نہ کرتے تھے اور نہ کسی کو ایک پیسہ ناجائز خرچ کرنے کی اجازت دیتے تھے ،خلیفۂ وقت بلا امتیاز خاندان و قبیلہ ہر ایک مسلمان کے ساتھ یکساں محبت کرتا اورہر خطا وار کو بلا امتیاز خاندان وقبیلہ یکساں سزا دیتا تھا نہ کبھی خلیفہ کو کسی نے اس طرف متوجہ کیا کہ وہ روپیہ حاصل کرنے اوراپنی مالی حالت درست کرنے کی کوشش میں مصروف ہوئے ہوں اور نہ عام مسلمانوں کو اس طرف کوئی خصوصی توجہ تھی کہ وہ مال و دولت حاصل کریں اور متمول بن جائیں،اب اس کے بعد خلافت راشدہ کا دوسرا نصف حصہ شروع ہوتا ہے، مذکورہ بالا تمام امتیازات کم ہوتے اور ہٹتے ہوئے نظر آنے لگتے اورکم ہوتے ہوتے خلافت راشدہ کے ساتھ ہی تمام امتیازات فنا ہوجاتے ہیں۔