انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** لفظ حدیث حضورؐ کے سامنے صحابہؓ کی زبان سے (۱)حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ایک خاتون حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کی: "ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّه"۔ (بخاری،بَاب تَعْلِيمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ،حدیث نمبر:۶۷۶۶،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:مرد تو آپ کی حدیثیں لے جاتے ہیں،آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر فرمادیں ہم آپ کے پاس اس دن آیا کریں اور اللہ تعالی نے جو آپ کو بتلایا ہے آپ ہمیں بھی پڑھادیا کریں۔ اس روایت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت حضورﷺ کی تعلیمات اور آپ کے ارشادات کو حدیث کہا جاتا تھا،وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے، آپ جو کچھ فرماتے اللہ تعالی کے بتلانے سے بتلاتے اور یہ بات صحابہ کرام کے ہاں تسلیم شدہ تھی، حضورﷺ حدیث میں وہی رہنمائی پیش فرماتے، جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کے قلب میں القاء کی جاتی، حدیث میں بھی ربانی ہدایت divine lement شامل تھی۔ (۲)حضرت ابو ھریرہ ؓ نے حضور اکرمﷺ کے سامنے عرض کیا: "إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ "۔ (بخاری،بَاب حِفْظِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۱۱۶، شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:میں آپ سے بہت حدیثیں سنتا ہوں جنہیں بھول جاتا ہوں،اس پر آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ میں نے پھیلادی،آپ نے ہاتھوں سے اس میں کوئی چیز ڈالی اور فرمایا اسے لپیٹ لو، میں نے اسے لپیٹ لیا اس کے بعد میں کبھی نہیں بھولا۔ ان روایات میں حضور پاکﷺ کے ارشادات کے لیے صریح طور پر حدیث کا لفظ ملتا ہے۔ (۳)ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓ کہتی ہیں کہ ہم حضورﷺ کی باتیں آپس میں کرتی تھیں اسے آپ نے حدیث سے ذکر کیا اورحضورﷺ کےسامنے بھی اسے اسی طرح بیان کیا: "إِنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ نَاكِحٌ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لَوْ لَمْ أَنْكِحْ أُمَّ سَلَمَةَ مَا حَلَّتْ لِي إِنَّ أَبَاهَا أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ "۔ ترجمہ:ہم آپس میں باتیں کررہی تھیں کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں، حضورﷺ نے فرمایا:کیامیں اس سے اس کے باوجود نکاح کرسکتا ہوں کہ (ان کی ماں) ام سلمہ میرے نکاح میں پہلے ہی سے موجود ہے؟اگرمیں ام سلمہؓ سے نکاح نہ کیے ہوتاجب بھی وہ(درہ) میرے لیے حلال نہیں تھی ؛کیونکہ اس کےوالد( ابو سلمہ) میرے رضاعی بھائی تھے، (یعنی اس جہت سے درہ میری بھتیجی ٹھہرتی ہے اور اس سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے)۔ ذخیرۂ حدیث میں اس قسم کی متعدد روایات ملتی ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام حضورﷺ کے سامنے آپ کے ارشادات کو حدیث کہتے تھے، انہیں یاد رکھتے انہیں آگے روایت کرتے اور آپﷺ کے بعد بھی آپ کی تعلیمات اور آپ کی روایات کو حدیث ہی کہتے رہے اوراس کی روایت میں پوری فکر او راحتیاط کی تلقین کرتے رہے۔