انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تشہد اور درود کے بعد حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نماز میں یہ دعاء پڑھتے تھے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ (بخاری،باب الدعاءقبل السلام،حدیث نمبر:۷۸۹) ترجمہ:اے اللہ میں عذاب قبر سے پناہ مانگتا ہوں،مسیح الدجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں،موت وحیات کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں ،اے اللہ میں گناہ و قرض سے پناہ مانگتا ہوں۔ حضرت صدیق اکبرؓ سے مروی ہے کہ حضور پاک ﷺ سے درخواست کی کہ کوئی دعاء بتادیجئے جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں،آپ ﷺ نے فرمایا یہ دعاء پڑھو: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (بخاری،باب الدعاءقبل السلام،حدیث نمبر:۷۹۰) ترجمہ:اے اللہ میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا کوئی معاف کرنے والا تیرے سوا نہیں ،اپنی طرف سے معاف فرمادیجئے اوررحم فرمادیجئے آپ غفور رحیم ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سلام اورتشہد کے درمیان یہ دعا پڑہتے: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا اِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ۔ (مسلم،باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ،حدیث نمبر:۴۸۹۶) ترجمہ:اے اللہ ہمارے پچھلے اگلے گناہ معاف فرما،جو ظاہراً کئے یا چھپ کرکئے حد سے زیادہ گزرتے ہوئے کیا معاف فرما اوروہ جسے آپ ہم سے زیادہ جانتے ہیں،آپ ہی اول وآخرہیں،آپ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ فائدہ:خیال رہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد سے جو دعائیں تشہد وسلام سے قبل کی ذکر کی گئیں ہیں،احناف کے یہاں فرائض میں نہیں پڑھی جائیں گی؛بلکہ نوافل اور رات کی نماز میں پڑھی جائیں گی، اسی وجہ سے محدثین نے صلوٰۃ اللیل کے موقع پر بیان کی ہیں؛چنانچہ امام مسلم نے اس قسم کی دعاؤں کو صلوٰۃ اللیل کے ذیل میں بیان کیا ہے، نوافل میں ان دعاؤں میں سے کسی دعاء کو یا باری باری تمام دعاؤں کو پڑھ لیا کرے تاکہ آپ ﷺ کی سنت پر عمل کا ثواب عظیم پائے۔ (کذافی کتب فقہ،شامی:۱/۴۸۸)