انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ہلال بنؓ امیہ نام ونسب قبیلۂ اوس کے خاندانِ واقف سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،ہلال بن امیہ ابن عامر بن قیس بن عبدالاعلم بن عامر بن کعب بن واقف (مالک) بن امراء القیس بن مالک بن اوس ۔ والدہ کا نام انیسہ تھا اورحضرت کلثوم بن الہدمؓ جن کے مکان میں آنحضرتﷺ نے ہجرت کے بعد قیام کیا تھاان کی یہ ہمشیر تھیں۔ اسلام عقبۂ ثانیہ کے بعد مسلمان ہوئے اورخاندانِ واقف کے بُت توڑنے کی سعادت حاصل کی۔ غزوات اور عام حالات بدر اور احد میں شرکت کی،فتح مکہ میں واقف کے علمدار تھے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے،آنحضرتﷺ واپس تشریف لائے تو خود ہی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے کوئی عذر نہ تھا،یوں ہی بیٹھا رہ گیا اورشریک نہ ہوسکا آنحضرتﷺ نے جب لوگوں کو ان سے بات چیت کرنے کی ممانعت فرمادی تو یہ گھر میں بیٹھ رہے اور شب وروز گریہ وزاری میں لگ گئے ،۴۰ دن گذر گئے تو آنحضرتﷺ کا حکم پہنچا کہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہوجاؤ، ان کی بیوی حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کی کہ ہلال ؓ بہت بوڑھے ہیں اورن کے پاس خدمت کے لئے کوئی آدمی نہیں، کیا میں ان کی خدمت کرسکتی ہوں،فرمایا ہاں؛ لیکن وہ تمہارے پاس نہ آنے پائیں ،بولیں وہ تو حرکت کرنے کے بھی قابل نہیں، ۱۰ روز کے بعد جب ۵۰ دن پورے ہوئے تو بہ قبول ہوئی اور یہ آیت اتری "وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا" غالباً اس واقعہ کے بعد ہی لعان کا واقعہ پیش آیا شریک بن سحماء ایک شخص تھے ،ہلالؓ نے اپنی بیوی کو ان کے ساتھ متہم کیا اورجاکر آنحضرتﷺ سے بیان کیا ارشاد ہوا کہ دو صورتیں ہیں،یا توثبوت پیش کرو یا اپنی پیٹھ پر درے کھاؤ،ہلالؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ جب ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس دوسرے کو دیکھے تو کیا اس کے لئے اس کا ثبوت بھی بہم پہنچانا ضروری ہے،آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ثبوت پیش کرو ورنہ سزا ہوگی،تو ہلالؓ بولے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق وصداقت کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں سچا ہوں اور امید ہے کہ خدا میری برأت میں قرآن نازل کرے گا جس سے میری پیٹھ حد سے بچ جائے گی اس کے بعد آیت لعان "والذین یرمون ازواجھم الخ"اتری تو آنحضرتﷺ نے عورت کو بلا بھیجا اور ہلالؓ بھی آگئے اور انہوں نے شہادت دی تو آپ نے فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم دونوں میں ایک یقیناً جھوٹا ہے تو کیا تم سے کوئی توبہ کررہا ہے پھر عورت اٹھی اوراس نے بھی شہادت دی پانچویں مرتبہ لوگوں نے اس کو روکا اورکہا کہ اس قسم کا نتیجہ قطعی برآمد ہوگا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ وہ عورت یہ سن کر ہچکچائی اورپیچھے ہٹ گئی اور ہم نے یہ سمجھا کہ وہ اعتراف کرلے گی ؛لیکن اس نے کہا میں اپنی قوم کو کبھی رسوا نہیں کرسکتی اوراس نے اپنی شہادت پوری کردی ،ارشاد ہوا خیال رکھنا اگر سر مگیں چشم،پرگوشت سرین اورموٹی پنڈلیوں والا لڑکا ہو تو شریک کا سمجھا جائے گا،چنانچہ شریک کا ہمصورت لڑکا پیدا ہوا، آنحضرتﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ اگر اللہ کا حکم نہ آیا ہوتا تو میرا اس کے ساتھ کچھ اور سلوک ہوتا۔ (بخاری:۶۹۵) اوپر گذر چکا ہے کہ یہی عورت جب آنحضرتﷺ سے اپنے شوہر کی خدمت گذاری کی اجازت لینے آئی تھی تو آپ کے استفسار پر کہا تھا۔ واللہ ما بہ حرکۃ الی شی میرا شوہر کسی قسم کی حرکت کے قابل نہیں۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت ہلالؓ کا خیال بالکل صحیح تھا، چنانچہ ایسا ہی واقعہ بھی ہوا۔ وفات سنہ وفات صحیح طور پر متعین نہیں، لیکن ابن شاہین نے لعان کے قصہ کو جس سلسلہ سے روایت کیا ہے اس میں اخیر نام عکرمہ کا ہے جنہوں نے ہلالؓ سے بلاواسطہ اس قصہ کو سنا تھا، اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ہلالؓ نے امیر معاویہؓ کے زمانہ میں وفات پائی۔ اخلاق صحیح بخاری میں کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ہلالؓ اورفلاں دونوں نہایت صالح تھے (بخاری:۲/۶۳۵) اوردرحقیقت بنو سلمہ کے بت توڑنا تبوک میں اور لوگوں کے برخلاف جھوٹ اوربہانہ سے گریز کرنا اپنی بیوی کے واقعہ میں صاف گوئی سے کام لینا ان کے جوش ایمان زہد و تقویٰ اور راست بازی وصداقت کی نہایت روشن علامات ہیں۔