انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۹۰۔ابوالزنادؒ نام ونسب عبداللہ نام،والدکانام ذ کوان تھا،ابو عبدالرحمن کنیت،ابو الزناد لقب،لقب ہی سے وہ مشہور ہیں،نسبًاہمدانی تھے،ابوالزناد قریش کی غلامی میں تھے، لیکن غلامی کی نسبت میں اختلاف ہے،بعض رملہ بنت ربیعہ کا اوربعض حضرت عثمانؓ کی اولاد کا غلام بتاتے ہیں۔ فضل وکمال اگرچہ ابوالزناد غلام تھے،لیکن اقلیم علم کے تاجدار تھے،اکابر تابعین کے بعد جو بزرگوار علم کے مسند نشین ہوئے،ان میں ایک نام ابو الزناد کا بھی ہے،ان کو جملہ علوم میں یکساں دستگاہ حاصل تھی، امام نووی لکھتے ہیں ہیں کہ ان کی ثناء وصفت،ان کے وفورِ علم ان کے حفظ،ان کے فضل اورمختلف علوم میں ان کی مہارت ،توثیق اوران کی جلالت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء،ج اول،ق۲،ص۲۳۳) حدیث حدیث میں انہوں نے انس بن مالکؓ ،عائشہ بنت سعد،ابوامام بن سہل بن حنیف سعید بن مسیبؓ، ابو سلمہؓ بن عبدالرحمنؓ، آبان بن عثمانؓ، خارجہ بنت زید بن ثابتؓ، عبید بن حسینؓ عروہ بن زبیرؓ، علی بن حسینؓ،عمرو بن عثمانؓ،عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ اورمحمد بن حمزہ اسلمی وغیرہ سے فیض اٹھایا تھا۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۰۳،۲۰۴) ان بزرگوں کے فیض نے ان کو حدیث کا بڑا جلیل القدر حافظ بنادیا تھا،امام حدیث سفیان ثوری ان کو امیر المومنین فی الحدیث کہتے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۱) علامہ ابن سعد ثقہ اورکثیر الحدیث لکھتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۱) تلامذہ ان کے لڑکے عبدالرحمن اورالقاسم،صالح بن کیسان،ابن ابی ملیکہ،اعمش عبید اللہ ابن عمرو بن عجلان ہشام بن عروہ ،شعیب بن ابی حمزہ،ابن اسحٰق ،موسیٰ بن عقبہ سعید بن ابی بلال ،زاہد بن قدامہ اورسفیان وغیرہ ان کے زمرۂ تلامذہ میں تھے۔ (تہذیب الاسماء،ج۱،ق۲،ص۲۳۳ بحوالہ ابن سعد) فقہ فقہ میں بھی امتیازی درجہ رکھتے تھے،ان کا شمار فقہائے مدینہ میں تھا، فقہ میں وہ مشہور فقیہ تابعی ربیعہ رائی کے مقابلہ کے سمجھے جاتے تھے،امام ابو حنیفہ ان کو ربیعہ سے مرحج سمجھتے تھے،ربیعہ سے پہلے انہیں کی ذات مرجوعہ تھی،لیکن ربیعہ کی مسند بچھنے کے بعد ان کا حلقہ درس خالی ہوگیا اوران کے تمام تلامذہ ربیعہ کی طرف رجوع ہوگئے۔ (تہذیب التہذیب:۵/۲۰۳) جامعیت اورحلقۂ درس کی وسعت ابو الزناد کی جامعیت کی مناسبت سے ان کا حلقہ درس بھی نہایت وسیع تھا،اس میں مختلف علوم وفنون کے سینکڑوں طلبہ کا ہجوم رہتا تھا،عبداللہ بن سعید کا بیان ہے،کہ میں نے ابو الزناد کو اس شان سے مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ ان کے ساتھ طلبہ کا بادشاہوں کے ہجوم جیسا ہجوم تھا، اس ہجوم میں فرائض کے سائلین بھی ہوتے تھے اور حساب کے بھی شعر کے بھی اور معضلات کے بھی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۱)لیث بن سعد کا بیان ہے کہ میں نے ابو الزناد کے پیچھے بہ یک وقت فقہ، شعر و شاعری اورمختلف علوم کے تین تین سو طالب علم دیکھے ہیں، مذہبی علوم کے علاوہ زبان ادب وانشا اورفصاحت و بلاغت میں بھی دستگاہ تھی،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: کان فصیحا بصیر ابا العربیۃ غیر مذہبی علوم میں حساب میں خصوصیت کے ساتھ بڑی مہارت تھی اس مہارت کی بنا پر کبھی کبھی حکومت کے دفاتر کی جانچ پڑتال ان کے سپرد ہوتی تھی، ایک مرتبہ وہ اسی سلسلہ میں ہشام کے پاس شام گئے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۱) عقل وفرزانگی اس علم کے ساتھ انہوں نے دنیاوی عقل و فرازنگی سے بھی وافر حصہ پایا تھا۔ (تہذیب الاسماء،ج۱،ق۲،ص۳۴) وفات باختلافِ روایت رمضان ۱۳۷ یا ۱۳۱ میں دفعۃً انتقال ہوا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۱) وفات کے وقت چھیا سٹھ سال کی عمر تھی۔ (تہذیب الاسماء،ج۱،ق۲،ص ۲۳۴)