انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صلوۃ الخوف وہاں غطفان کی بہت بڑی جمعیت تھی مگر مقابلہ نہیں ہوا، طرفین ایک دوسرے سے مرعوب ہوکر اپنی اپنی جگہ کھڑے رہے، اس موقع پر جنگ کی حالت میں نماز پڑھنے سے متعلق سورۂ نساء کی آیت ۱۰۲ میں فرمایاگیا : " اور ( اے پیغمبر ) جب تم ان ( مجاہدوں کے لشکر ) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو ان میں کی ایک جماعت اپنے ہتھیار لئے ہوئے تمہارے ساتھ نماز کو کھڑی ہو پھر جب یہ سجدہ کرچکے تو یہ تمہارے پیچھے ( یعنی دشمن کے مقابلہ پر ) ہوجائے ، پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی ( ان کی جگہ ) آئے اور تمہارے ساتھ نماز پڑھے مگر اپنے بچاؤ کا سامان اور ہتھیار لئے رہے ( کیونکہ ) کافر چاہتے ہیں کہ اگر تم ذرا بھی اپنے ہتھیاروں اور سامان ( جنگ ) سے غافل ہوجاؤ تو وہ تم پر ایک دم ٹوٹ پڑیں ، اور اگر تمہیں بارش کی وجہ سے کچھ تکلیف ہویا تم بیمار ہو تو پھر تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار کر رکھ دو مگر ہوشیار ( ضرور )رہو بے شک اللہ نے کافروں کے لئے ذلت اور عذاب تیارکر رکھا ہے ( سورۂ نساء :۱۰۲) حضور اکرم ﷺ نے صلوٰۃ الخوف پڑھی، حضورﷺ نے اپنے صحابہؓ کے دو حصے کئے، ایک دشمن کے بالمقابل جاکھڑاہوااور دوسرا نماز کے لئے حضورﷺ کے پیچھے کھڑاہوا اور حضورﷺ کی اقتداء میں رکوع و سجدہ کیا اور پھر الٹے پاوں چل کر دوسرے ساتھیوں کے مقام پر آکر دشمن کے سامنے کھڑے ہوگیا، اب پہلی جماعت نماز کے لئے پلٹی ، پہلے انھوں نے خود ایک رکعت پڑھی پھر کھڑے ہوئے اور اب حضور ﷺ نے ان کو نماز پڑھائی، رکوع کیا سجدہ کیا اور اس کے بعد جو لوگ اب دشمن کے سامنے کھڑے تھے وہ پلٹ کر آئے اور انھوں نے اپنی دوسری رکعت اداکی مگر جلسہ میں سب ایک ہوگئے اور سلام کے وقت سب پر حضورﷺ نے سلام بھیجا، (طبری - جلد اول) قبائل منتشر ہوگئے اور حضور ﷺلڑے بغیر چند روز قیام کرکے ۲۵محرم کو مدینہ لوٹ آئے ، اس غزوہ کے سنہ وقوع میں اختلاف ہے، بعض نے جمادی الاول ۴ ہجری اور بعض نے محرم ۵ ہجری لکھا ہے ، ابن سعد نے اسے محرم ۵ ہجری کا واقعہ لکھا ہے، علامہ شبلی نے بھی ۵ ہجری کا واقعہ بتلایاہے،اہل سیر کی رائے کے خلاف امام بخاری ؒ کی رائے ہے کہ یہ واقعہ خیبر کے بعد کا ہے، بخاری میں حضرت ابو موسیٰؓ کی روایت ہے کہ وہ غزوۂ ذات الرقاع میں شریک تھے اور حضرت ابو ہریرہؓ کے متعلق بھی روایت ہے کہ وہ اس غزوہ میں موجود تھے اور یہ دونوں خیبر کی فتح کے بعد آئے ہیں، اس بناء پر ابن قیم نے زادلمعاد میں لکھاہے " درست یہ ہے کہ غزوۂ ذات الرقاع کو یہاں سے ہٹاکر غزوۂ خیبر کے بعد لکھا جائے۔