انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اسلوب حدیث آنحضرتﷺ کا اندازِ بیان، لب ولہجہ حدیث سے متعلق جاننا بھی ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ کا اسلوب بیان کیا تھا، قرآن کریم کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا انداز بیان حکیمانہ اورلہجہ سخن بہت نرم تھا، قرآن کریم میں ہے کہ آپ قرآن کریم سنانے اورصحابہ کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ معلم حکمت بھی ہیں،آپ نے امت میں اخلاق و حکمت کےپھول چنے، اپنے آپ کو معلم اخلاق بتلایا،قرآن کریم نے آپ کے وصف "وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" کی بھی خبردی ہے اورآپ کا لہجہ سخن یہ بتایا : "فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْكُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ"۔ (آل عمران:۱۵۹) ترجمہ:سویہ اللہ ہی کی رحمت ہے کہ آپ ان کے سامنے نرم دل رہےاور اگر آپ ہوتے سخت دل تندخو تو یہ آپ کے پاس سے متفرق ہوجاتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، حضورصلی اللہ علییہ وسلم نے فرمایا: "أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ"۔ (سنن ابی داؤد،باب فی تنزیل الناس منازلھم،حدیث نمبر:۴۲۰۲) ترجمہ :لوگوں کے سامنے اس طرح اترو جس درجہ کے وہ ہوں۔ آپ امت کے لیے شفقت مجسم تھے،بات نہایت آسان کرتے، مثالیں دے دے کر بات واضح کرتے اور اسے دلوں میں اتارتے، ایسی بات جس سے مغالطہ پیدا ہو،اس سے منع فرماتے ایک بات پر لمبی تقریر نہ فرماتے، جو بات فرماتے پختہ اورمحکم ہوتی،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب کسی امر الہٰی کا بیان ہوتا تو اللہ رب العزت کے اجلال میں آپ کے چہرہ انور پر کبھی کچھ آثار جلال آجاتے، یہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہوکر خالق کی طرف جھکنے کا ایک پیرایہ تھا۔ حدیث کا سرچشمہ بھی وحی خداوندی ہے،الفاظ خدا کی طرف سے مقرر ہوں تو یہ وحی قرآن ہے،حضورﷺ کے اپنے ہوں تو یہ حدیث ہے،سو حدیث معنا شانِ اعجاز رکھتی ہے اوراسے کسی پہلو سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا، لفظا یہ معجز نہیں؛ تاکہ قرآن کریم کی شان اعجاز واضح رہے،حضورﷺ نے جس طرح قرآن کے مقابل مشرکین سے نظیر مانگی، اپنے الفاظ کو آپ نے کبھی بے مثل نہ ٹھہرایا، نہ کبھی یہ دعویٰ کیا کہ یہ حداعجاز کو چھورہے ہیں،ہاں یہ ضرورہے کہ آپ جوامع الکلم سے نوازے گئے اورانسانی کلام فصاحت اور بلاغت کی جس بلندی تک جاسکتا ہے، آپ اس میں بات کہتے تھے اوراس پہلوسے آپ کی بات بہت جامع ہوتی تھی۔