انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بستر علالت سے جہاد فی سبیل اللہ ۲۶ ماہ صفر ۱۱ ھ کو بیماری سے کسی قدر افاقہ محسوس ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شام و فسلطین کی سرحدوں کی خبریں سُن کر مسلمانوں کو جنگِ روم کی تیاری کا حکم دیا کیونکہ یمامہ ویمن کے فتنوں اورعرب کے عیسائیوں کی سازشوں نے رومیوں کو پھر ملکِ عرب کی طرف متوجہ کردیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن حضرت اُسامہؓ بن زید بن حارث کو سالارِ لشکر بناکر فرمایا کہ تم اپنے باپ کے مقتل پر اس قدر جلد جاؤ کہ وہاں کے لوگوں کو تمہارے آنے کی خبر نہ ہو، انشاء اللہ تعالیٰ تم کو فتح حاصل ہوگی ۲۸ صفر ۱۱ھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کا اشتد ادظاہر ہوا اور تمام جلیل القدر صحابہ کو اُسامہ کے ساتھ جانے کا حکم دیا،ابوبکرؓ،عباسؓ،عثمانؓ ،علیؓ، سب اُسامہؓ بن زید کے ماتحت بنا کر روانہ کئے گئے،مگر علالت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسامہ ؓ کی اجازت سے علیؓ و عباسؓ کو تیمار داری کے لئے مدینہ میں رکھ لیا تھا، باقی تمام صحابہؓ اُسامہؓ کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوئے،اُسامہؓ نے مدینہ سے ایک کوس چل کر مقامِ جرف میں قیام کیا، وہاں سے حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ اُسامہؓ سے اجازت طلب کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور پھر چلے جاتے تھے،اُسامہ لشکر لئے ہوئے جرف میں پڑے رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت دیکھ کر کوچ نہ کرسکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس حالت میں اُن کو کوچ کرنے کا حکم نہ دیا اورمعہ لشکر اُن کے جرف میں مقیم رہنے کوجائز رکھا،اُسامہؓ کی سرداری سے بعض لوگوں کو انقباض پیدا ہوا کہ اُن کے باپ زیدؓ غلام تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان پر چہ میگوئیوں کو سُنا تو لوگوں کو بلاکر کہا کہ جب اس کا باپ سالارِلشکر رہ چکا ہے تو اس کی سرداری میں کیوں اعتراض کیا جاتا ہے؟ پھر فرمایا کہ زیدؓ اول المسلمین میں سے ہیں،اُن کا مرتبہ اسلام میں بہت بڑا ہے،غرض جن کو اعتراض تھا وہ نادم ہوئے اورپھر بخوشی اُن کی سرداری کو تسلیم کیا۔