انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عرب کے اقوام وقبائل مورخین نے عرب کے اقوام و قبائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ! ۱- عرب بائدہ : عرب کے قدیم ترین قبائل جو اسلام سے بہت پہلے فنا ہوچکے تھے، اقوام عاد و ثمود کا تعلق ان ہی سے تھا، ۲- عرب عاربہ : بنو قحطان جو عرب بائدہ کے بعد عرب کے اصلی باشندے تھے اور جن کا اصلی مسکن یمن تھا، ۳- عرب مستعربہ : بنو اسمٰعیل یعنی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد جو حجاز میں آباد تھی، حضرت اسمعٰیل علیہ السلام نے جرہم کے خاندان میں شادی کی تھی جن سے ۱۲ بیٹے پیدا ہوئے جن کا ذکر تورات میں بھی موجود ہے ، بائبل کے مطابق حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی عمر ۱۳۷ سال کی ہوئی اور وہ تمام عمر مکہ کے سربراہ اور بیت اﷲ کے متولی رہے ، ان کے بعد ان کے دو بیٹے نابت اور قیدار یکے بعد دیگرے مکہ کے حکمران ہوئے ،اس طرح مکہ پر طویل عرصہ تک بنو جرہم کی حکومت رہی اس کے بعد بنو جرہم کی حالت خراب ہو گئی اور معاشی تنگ دستی کی بدولت انھوں نے بیت اﷲ کے زائرین پر زیادتیاں شروع کر دیں ، اسی زمانہ میں آل خزاعہ نے مکہ کے قریب مرالظہران میں سکونت اختیا رکرلی، آل قزاعہ (یعنی بنی بکر بن عبدمناف بن کنانہ ) کعبہ کی بے حرمتی برداشت نہ کرسکے اور بنو جرہم کے خلاف جنگ کرکے مکہ پر قبضہ کرلیا اور بنو جرہم کو وہاں سے نکال دیا، بنو خزاعہ بھی بدترین متولی اور ظالم حکمران ثابت ہوئے ؛کیونکہ انہی کے عہد حکومت میں حجاز میں بت پرستی کا آغاز ہوااور بیت اﷲ بت خانہ بن گیا، اس قبیلہ کے ایک سردار عمرو بن لحی خزاعی نے شام سے جہاں بت پرستی عام تھی ایک بت ہبل نام کا لاکر کعبہ کی چھت کے بیچ میں نصب کیا جس کی شکل انسان کی سی تھی، طائف میں لات کی پوجا ہوتی تھی جو بت نہیں؛ بلکہ ایک مربع چٹان تھی، مکہ کے قریب نخلہ میں عزیٰ نامی دیوی کی پوجا ہوتی تھی،یثرب میں اوس و خزرج کے قبائل منات کی پوجا کرتے تھے ، ابن اسحاق کا بیا ن ہے کہ آل اسمعٰیل میں بت پرستی کے آغاز کی وجہ یہ تھی کہ مکہ سے جب کوئی شخص سفر پر روانہ ہوتا تو حرم کے احترام کی وجہ سے حرم کا پتھر اپنے ساتھ اٹھا لے جاتا اور جہاں قیام کرتا وہیں کعبہ کی طرح اس کا طواف کرتا ، رفتہ رفتہ وہ ہر عمدہ پتھر کو پوجنے لگے، اس کے باوجود ان میں دین ابراہیمی کے بعض آثار باقی تھے، مثلاً بیت اﷲ کا طواف، احرام باندھنا، عمرہ کرنا، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں وقوف کرنا اور تلبیہ کہنا ، بنو جرہم جب مکہ سے بے دخل ہوئے تو وہ یمن جاکر وہاں آباد ہوگئے ؛لیکن جاتے جاتے انھوں نے زمزم کا کنواں بند کردیا اور خانہ کعبہ میں لگا ہوا حجر اسود نکال کر زمزم کے کنویں میں دفن کردیا ، بنو خزاعہ کی حکومت مکہ پر تقریباً تین سو برس تک رہی اوراسی زمانہ میں عدنانی قبائل مکہ اور حجاز سے نکل کر نجد اور اطراف عراق اور بحرین میں پھیلے اور مکہ کے اطراف و اکناف میں قریش کی چند شاخیں باقی رہیں جو خانہ بدوش تھیں، آنحضرت ﷺ بنو عدنان سے ہیں، عدنانی قبائل سے ایاد،ربیعہ اور مضر بہت مشہور ہوئے ، ان میں بھی ربیعہ اور مضر زیادہ مشہور ہیں، شرف اور عزت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل تھے، قبائل مضر کے مشہور قبیلہ کنانہ میں فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ تھے جن کو قریش بھی کہتے ہیں، نضر کے بعد فہر اور ان کے بعد قصی بن کلاب نے نہایت عزت و اقتدار حاصل کیا، اس زمانہ میں بیت اﷲ کے متولی حلیل بن حبشیہ خزاعی تھے جن کی صاحبزادی حبی سے قصی نے شادی کی، جب حلیل کا انتقال ہوا تو مکہ اور بیت اﷲ کی تولیت کے لئے خزاعہ اور قریش کے درمیان جنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں مکہ اور بیت اﷲ پر قصی کا اقتدار قائم ہوگیا، اس جنگ سے متعلق تین روایات ملتی ہیں، پہلی یہ کے جب قصی کے پاس کافی دولت جمع ہوگئی اور ان کا وقار بڑھ گیا تو انھوں نے سوچا کہ حلیل کی وفات کے بعد بنو خزاعہ اور بنو بکر کے بجائے خود کعبہ کی تولیت حاصل کرے ؛چنانچہ کچھ اور لوگوں کی مدد سے انھوں نے بنو خزاعہ اور بنو بکر کو مکہ سے نکال باہر کیا، دوسری روایت یہ ہے کہ مرنے سے قبل خود حلیل نے یہ وصیت کی تھی کہ بیت اﷲ کی تولیت قصی کے سپرد کی جائے؛ چنانچہ قصی بیت اﷲ کے متولی بن گئے اور مکہ پر ان کا تسلط ہوگیا، تیسری روایت یہ ہے کہ حلیل نے اپنی بیٹی حبی کو بیت اﷲ کی تولیت سونپی تھی اور ابو غبشان خزاعی کو اس کا وکیل بنایاتھا؛ چنانچہ حبی کے نائب کی حیثیت سے وہی خانہ کعبہ کا کلید بردار تھا، جب حلیل کا انتقال ہوگیا تو قصی نے ابو غبشان سے ایک مشک شراب کے بدلے کعبہ کی تولیت خریدلی ؛لیکن خزاعہ نے ایسا نہیں ہونے دیا، اس لئے قصی نے بنو خزاعہ کو مکہ سے نکالنے کے لئے قریش اور بنو کنانہ کو جمع کیا اور وہ قصی کی آواز پر سب جمع ہوگئے اوراس طرح قصی نے بیت اﷲ کی تولیت حاصل کرلی ، قصی نے بڑے بڑے نمایاں کام انجام دئیے جو ایک مدت تک یادگار رہے، انھوں نے اپنی ریاست کا ایک جھنڈا تجویز کیا جسے"لواء" کہتے تھے ، ان کا سب سے نمایاں کارنامہ مکہ میں"دارالندوہ " کا قیام ہے جسے قریش کی پارلیمنٹ کہا جاسکتاہے ، دارالندوہ میں بڑے بڑے اور اہم معاملات بعد مشورہ طئے کئے جاتے تھے، سہولت کی خاطر انھوں نے انتظامی امور قریش کے دس خاندانوں میں تقسیم کردئیے تھے جو اس طرح تھے : ۱)بنو ہاشم : سقایہ اور عمارہ :یعنی کعبہ کے زائرین کے لئے خوردونوش کی ذمہ داری، ۲)بنو امیہ: لوائے قومی(عقاب) اٹھانے اور جنگ کی صورت میں سپہ سالاری کے فرائض، ( بعثت کے وقت حضرت ابو سفیان اس منصب پر فائزتھے) ۳)بنو نوفل: امور رفادہ : اس شاخ کے سپرد تھے، غرباء کی نگرانی اور ان کی مدد ( بعثت کے وقت یہ فرائض حارث بن عامر انجام دے رہے تھے) ۴)بنو عبدالدار: اس قبیلہ میں امور حجابت یعنی کعبہ کو زائرین کے لئے کھولنا ااور بند کرنا اور کلید کعبہ کی حفاظت کا کام تھا ، ۵)بنو اسد : شعبہ مشاورت یعنی اہم امور میں صلاح و مشورہ سے مسائل طئے کرنا، دارالندوہ کے انتظامات بھی اس خاندان سے متعلق تھے جہاں قریش کی لڑکیا ں بیاہی جاتی تھیں،یزید بن زمعہ صدر خاندان تھااور شعبہ مشاورت کا ذمہ دار، ۶)بنو تیم : امو ر خصاص و دیت اس خاندان کے سپرد تھے، خوں بہا کا تعین، ضمانت، فوج داری مقدمات اور تعاوان جنگ، دوسرے الفاظ میں محکمہ انصاف و جنگ اس خاندان کے سپرد تھے، بعثت کے وقت حضرت ابوبکر ؓ اس کے سربراہ تھے ، ۷)بنو مخزوم : امور جنگ میں سے قبہ یعنی فوجی کیمپ کا انتظام ، بعثت کے وقت یہ کام حضرت خالد بن ولید کے ذمہ تھا اور اعنّہ یعنی سواروں کے دستہ کی سپہ سالاری ، بعثت کے وقت ابو جہل اعنّہ کے منصب کا حامل تھا، قبہ اور اعنّہ دونوں اہم عہدہ بنی مخزوم کے پاس تھے، ۸)بنی عدی: اس قبیلہ میں امور سفارت یعنی دیگر قبائل و ممالک میں قریش کی نمائندگی کے فرائض تھے، بعثت کے وقت حضرت عمر ؓ اس کے سربراہ تھے ، ۹)بنی جمح : امور ایسار: یعنی بتوں سے استخارہ کی خدمت ، ظہور اسلام کے وقت ان امور کا نگران صفوان بن امیہ تھا ، ۱۰)بنی سہم : امور احوال المحجرہ ؛یعنی بتوں کے چڑھاوے پر نگرانی یعنی محکمہ مال و خزانہ، بعثت کے وقت یہ خدمت حارث بن قیس انجام دے رہا تھا، عمرو بن العاص بھی اسی قبیلہ سے تھے جنھوں نے نجاشی کے دربار میں مسلمان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا،