انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علم الآثار اور علم الکتاب قرآن کریم نے دینی علم کا ماخذ(۱)علم الکتاب اور(۲)علم الآثار ٹھہرائے ہیں، ان دو کا آپس میں ربط کیا ہے ؟علم الآثار کی علم الکتاب سے کیا نسبت ہے اور علم الآثار کی اپنی کیا حیثیت ہے ؟اس سلسلہ میں پیش نظر رہے کہ ان میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ مادی ظلمتوں سے کتاب اللہ کا نور ٹکراتا ہے تو علم الآثار علم الکتاب کی اس طرح حفاظت کرتا ہے کہ اس کا کوئی پہلو اپنے معنی ومراد سے دور نہیں کیا جاسکتا، جونہی کسی نے کتاب اللہ کے معنی مراد کو بدلنے کی کوشش کی علم الآثار نے ہر تاویل باطل کو تار تار کردیا، جس طرح فضائی فوج بری فوج پر حفاظت کا سایہ رکھتی ہے مجال ہے کہ دشمن کی فضائیہ اس پر اوپر سے حملہ آور ہو، اس طرح علم الآثار علم الکتاب کی حفاظت کرتا ہے، مجال ہے کہ علم الآثار کے ہوتے ہوئے علم الکتاب سے اس کی مرادات چھینی جاسکیں، علم الآثار سے علم الکتاب کے نہ صرف معنی ومفہوم کی وضاحت ہوتی ہے بلکہ قرآن کے عمومات کی تخصیص اور مجملات کی تفصیل بھی اس سے ملتی ہے اورعلم الآثار کے بغیر علم الکتاب کے عملی خاکے میں رنگ نہیں آتا ۔ اثر عربی میں نقش قدم کو کہتے ہیں، آثار اس کی جمع ہے،پیغمبروں کے نقش قدم پر ان کے صحابہ چلے اور اپنے نقش پا تابعین کے لیے چھوڑے؛ انہوں نے ان سے زندگی کی عملی راہ پائی، ان رابطوں سے جو علم مرتب ہوا وہی علم الآثار ہے، پیغمبرانہ تاریخ میں علم کے یہی دو ماخد تھے، جن کی پیروی ہدایت الہٰی سمجھی جاتی تھی اور انہی ماخذوں کا حضورﷺ نے اپنے مخالفین سے مطالبہ کیا تھا: "اِیْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ"۔ (الاحقاف:۴) ترجمہ:میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو،اگر تم واقعی سچے ہو۔ ان تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ تاریخ حدیث تاریخ نبوت کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے، حضور اکرمﷺ کی حدیث اوررسالت کی بھی ایک ہی وقت سے ابتداء ہوئی گو علم الہٰی میں آپ بہت پہلے سے نبی تھے، حدیث کے معنی زبانی بات کے ہیں، حیوان ناطق کی تاریخ میں اظہار خیال کا اولین ذریعہ یہی نطق وبیان تھا اور اسی سے انسان اپنے ابنائے جنس میں ممتاز ہوا اور حیوان ناطق نام پایا، اللہ تعالی نےانسان کو پیدا کیا اور بولنا سکھایا: "خَلَقَ الْإِنْسَانَ، عَلَّمَهُ الْبَيَانَ"۔ (الرحمن:۴،۳) ترجمہ:پیدا کیا انسان کو اور سکھایا اسے بولنا۔ انسانی تاریخ میں علم کا فطری ذریعہ حدیث (زبانی بات)تھی تو دین فطرت میں بھی علم کا ذریعہ حدیث (حضورﷺ کی بات) ہی قرار پائی؛ اسی سے قرآن کریم کا تعارف ہوا اور اسی سے دور اول کے معیاری انسانوں نے تزکیہ وترتیب کی دولت پائی، حدیث نہ ہوتی تونہ قرآن سمجھ میں آتا، نہ جماعت صحابہ تیار ہوتی۔