انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شیعہ کا انکار شیعہ حضرات اہل سنت کے سامنے جب کبھی ان حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں جواہل السنت والجماعت کے ہاں متداول ہیں یاصحاح ستہ سمجھی جاتی ہیں،تووہ انہیں الزامی طور پر پیش کررہے ہوتے ہیں، وہ اس بات کے مدعی ہوتے ہیں کہ یہ روایات اہل السنت کے ہاں معتبر ہیں؛ لیکن جہاں تک ان کے اپنے عقیدے کا تعلق ہے، وہ نہ ان کتابوں کومعتبر سمجھتے ہیں نہ اُن کے مؤلفین سے انہیں کوئی عقیدت ہے نہ وہ انہیں اپنے ہاں مؤمن تسلیم کرتے ہیں، ان کے ہاں حدیث کی اپنی کتابیں ہیں جواصول اربعہ کے نام سے معروف ہیں، سوشیعہ حضرات کا صحاح ستہ کی احادیث سے انکار دراصل ان کتابوں سے انکار ہے، حدیثِ رسولﷺ سے اصولی انکار نہیں، ارشادِ رسالت کےحجت ہونے کے وہبہرحال قائل ہیں؛ گویہ صحیح ہے کہ اُنہوں نے کتاب اللہ وسنتی (مؤطا اما م مالکؒ:۲۷۹) (اللہ کی کتاب اور میری سنت کولازم پکڑو) کی بجائے کتاب اللہ وعترتی (اللہ کی کتاب اور میری اولاد کوتم سند اور حجت جانو) کی روایت اختیار کی ہے، اہل السنت والجماعت کی کتاب احادیث میں جہاں یہ روایت کتاب اللہ وعترتی پائی جاتی ہے، اس کی اسنادمیں کوئی نہ کوئی شیعہ راوی ضرور موجود ہوتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اصلاً یہ شیعہ کی روایت تھی، مثلاً ترمذی شریف میں ہے: "يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَاإِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي"۔ (ترمذی،كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ،بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّﷺ،حدیث نمبر:۳۷۱۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اے لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگرتم نے اس سے تمسک کیا توتم کبھی گمراہ نہ ہوگے، کتاب اللہ اور اپنے اہلِ بیت۔ (یہ روایت صحیح ہوتوبھی اس میں خلافت عترت کی کوئی راہ نہیں، اس میں لفظ "فِيكُمْ" (تم میں) لائقِ غور ہے، حضورﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کونصیحت فرمارہے تھے کہ قرآنِ کریم اور میری عترت کوساتھ لے چلنا اور ان سے تمسک کرنا __________ جانے والا نصیحت کس کوکرتا ہے؟ جانشین کو __________ معلوم ہوا کہ جانشینی رسولِ صحابہؓ کے پاس آرہی تھی؛ تبھی توان کونصیحت کررہے تھے کہ قرآن اور عترت کوساتھ لے چلنا __________ جانشینی رسالت عترت کے پاس آنی ہوتی توعترت کوفرماتے کہ قرآن اور صحابہ رضی اللہ عنہ کوساتھ لے کر چلنا __________ لیکن ایسا نہ فرمایا اس کے برعکس فرمایا)۔ اِس حدیث کی سند میں دور سے ہی عبدالرحمن الکوفی نظر آئیں گے اور انسان یہ سوچنے پرمجبور ہوگا کہ یہ کوفہ سے کون بزرگ آرہے ہیں، جو یہ روایت سنارہے ہیں اور کوفی کاشیعی ہونا لوگوں کوپہلے سے معلوم ہوتا ہے؛ پھرشیعہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ان کا امام معصوم ہردور میں موجود رہا ہے اور یہ صرف امام کی بات ہے جو اُن کے ہاں حدیث کا درجہ رکھتی ہے؛ سوا اس کی احادیث کے ہوتے ہوئے انہیں جناب رسالت مآبﷺ کی احادیث کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔