انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اہلِ عرب کے وقار کا خاتمہ اب تک برابر سلطنتِ عباسیہ اہلِ عرب کی سیادت وعزت کوکم کرنے میں مصروف رہی تھی اور عجمیوں کوبرابر فروغ حاصل ہوتا رہا تھا؛ تاہم ملکِ عرب کے گہوارۂ اسلام ہونے کے سبب سے ایک خاص عزت اور دینِ اسلام کے اوّلین خادم ہونے کی وجہ سے عربوں کاایک خصوصی احترام ہرایک قلب میں موجود تھا، خود خاندانِ خلافت ایک عربی خاندان تھا، اس لیے عجمیوں کی یہ خواہش کبھی نہ ہوئی تھی کہ ہم عربوں کوذلیل کرنے کا موقع پائیں، نہ خلفاء نے اب تک خراسانی وترکی سپاہیوں کے دستوں کوعربی قبائل کی سرکوبی کے لیے حجاز ویمن وغیرہ میں بھیجا تھا؛ بلکہ جب کبھی حجاز ویمن وغیرہ کے خالص عربی صوبوں کے انتظام کے لیے ضرورت پیش آتی تھی توعربی یاعراقی یاشامی سپاہی بھیجے جاتے تھے، اس احتیاط اور اس التزام کا نتیجہ یہ تھا کہ عربوں کااگرچہ وہ بہت ہی کمزور کردیے گئے تھے، ایک احترام دلوں میں باقی تھا اور عربی وقار سے کسی کوانکار نہ تھا، اب خلیفہ واثق باللہ کے زمانے میں عربوں سے یہ چیز بھی چھن گئی، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نواح مدینہ میں قبیلہ بنوسلیم کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی، انہوں نے بنوکنانہ پرحملہ کیا اور ان کا مال واسباب لوٹ لیا، اس قسم کی لوٹ مار کے واقعات عربوں میں اس وجہ سے شروع ہوگئے تھے کہ وہ اب ملک گیریوں اور فوجی خدمتوں سے برطرف ومعزول کردیے گئے تھے اور خلفاءعباسیہ نے ان کواپنی فوجوں سے بہ تدریج خارج کردیا تھا، اس حالت میں عربوں کا جنگی جذبہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی میں تبدیل ہونے لگا تھا، مدینہ کے عامل محمد بن صالح نے جب بنوسلیم کی اس زیادتی کا حال سنا توان کی سرکوبی کے لیے فوج بھیجی، اس فوج کوبھی بنوسلیم نے شکستِ فاش دے دی اور مکہ ومدینہ کے درمیان تمام علاقے میں بدامنی پیدا ہوگئی اور قافلوں کی آمدورفت بند ہوگئی، خلیفہ واثق باللہ کوجب ان حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بغاکبیر اپنے ایک ترکی سپہ سالار کوترکی فوج کے ساتھ اس طرف روانہ کیا، بغاکبیر شعبان سنہ۲۲۰ھ میں مدینہ منورہ پہنچا، بنوسلیم سے لڑائیاں ہوئیں، ان کوشکست دی، ایک ہزار بنوسلیم کوگرفتار کرکے مدینہ منورہ میں قید کردیا اور بہت سوں کوقتل کیا۔ بغاکبیر قریباً چارمہینے تک مع اپنی ترکی فوج کے مدینہ میں مقیم رہا اور عربی قبائل کوطرح طرح ذلیل ومغلوب وخوف زدہ کرتا رہا، حج سے فارغ ہوکر بغاکبیر نے بنوبلال کی طرف توجہ کی اور ان کوبھی بنوسلیم کی طرح سزائیں دیں اور تین سوآدمیوں کوگرفتار کرکے قید کردیا؛ پھربنومرہ کی طرف متوجہ ہوا اور مقام فدک میں جاکر چالیس روز تک مقیم رہا اور فزارہ وبنومرہ کے بہت سے آدمیوں کوگرفتار کرکے لایا اور مدینہ میں قید کیا؛ پھربنوغفار، ثعلبہ اور اشجع کے رؤسا کوطلب کرکے ان سے اطاعت وفرماں برداری کے لیے حلف لیے؛ پھربنوکلاب کے تین ہزار آدمیوں کوگرفتار کرکے دوہزار کورہا اور ایک ہزار کوقید کردیا؛ پھریمامہ میں جاکر بنونمیر کے پچاس آدمیو کوقتل کیا اور چالیس کوقید کیا، اہلِ یمامہ مقابلہ پرمستعد ہوئے، بغاکبیر نے کئی لڑائیوں اور معرکہ آرائیوں میں ڈیڑھ ہزار اہلِ یمامہ کوقتل کیا، ابھی یمامہ میں لڑائی کے شعلے فرو نہ ہوئے تھے کہ واثق باللہ نے ایک اور ترک سردار کوتازہ دم ترکی فوج کے ساتھ یمامہ کی طرف بغاکبیر کی مدد کے لیے بھیج دیا، بغاکبیر نے تمام ملک یمامہ میں قتلِ عام شروع کرادیا، اہلِ یمامہ وہاں سے بھاگے تویمن تک ان کا تعاقب کیا اور ہزارہا آدمیوں کوقتل کیا؛ غرض عربی قبائل کواچھی طرح پامال وذلیل کرکے اور دوسوشرفائے عرب کوقید کرکے اپنے ہمراہ بغداد کی طرف لے کرآیا، جوقیدی مدینہ میں پہلے قید کرآیا تھا، وہ ان کے علاوہ تھے، بغداد آکر محمد بن صالح کولکھا کہ مدینہ کے تمام قیدیوں کولے کربغداد آؤ؛ چنانچہ محمد بن صالح ان کوبغداد لے کرآیا اور وہ بھی سب جیل خانے میں ڈال دیے گئے، بغاکبیر نے عرب میں دوبرس تک ترکوں کے ہاتھ سے عربوں کوبے دریغ قتل کرایا اورطرح طرح سے اُن کوذلیل ومغلوب کیا۔ سنہ۲۳۰ھ میں عبداللہ بن طاہر حاکمِ خراسان نے وفات پائی، خلیفہ واثق باللہ نے اس کے بیٹے طاہر بن عبداللہ بن طاہرکوخراسان، کرمان، طبرستان اور رَے کی حکومت پرعبداللہ بن طاہر کی وصیت کے موافق بحال رکھا۔