انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ توابین اوپر بیان ہوچکا ہے کہ رمضان سنہ۶۴ھ میں عبداللہ بن یزید انصاری عبداللہ بن زبیر کی طرف سے کوفہ کا حاکم مقرر ہوکر آیا اور انھیں ایام میں مختار بن ابوعبیدہ بھی کوفہ میں آیا، مختار نے کوفہ میں آکر لوگوں کوخونِ حسین کا معاوضہ لینے کے لیے اُبھارنا شروع کیا، لوگوں نے کہا کہ ہم توپہلے ہی اس کام کے لیے سلیمان بن صرو کے ہاتھ پربیعت کرچکے ہیں؛ لیکن ابھی اس کام کے لیے مناسب موقع نہیں آیا ہے، مختار نے کہا کہ سلیمان ایک پست ہمت آدمی ہے وہ لڑائی سے جی چراتا ہے، مجھ کوامام مہدی محمد بن الحنفیہ برادرامام حسین علیہ السلام نے اپنا نائب بناکر بھیجا ہے، تم لوگ میرے ہاتھ پربیعت کرو اور خونِ حسین کا معاوضہ ان کے قاتلیں سے لو، لوگ یہ سن کرمختار کے ہاتھ پربیعت ہونے لگے، یہ خبر جب عبداللہ بن یزید کوکوفہ پہنچی توانھوں نے اعلان کیا کہ مختار اور اس کے معاونین اگرخونِ حسین کا بدلہ قاتلین حسین سے لینا چاہتے ہیں تواس کام میں ہم بھی ان کی مدد کرنے کوتیار ہیں؛ لیکن اگروہکوئی کاروائی ہمارے خلاف کرنے کا عزم رکھتے ہیں توہم ان کا مقابلہ کرکے ان کوقرار واقعی سزا دیں گے، اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ سلیمان بن صرو اور اس کے ہمراہیوں نے علانیہ ہتھیار خریدنے شروع کردیائے اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ یکم ماہِ ربیع الثانی سنہ۶۵ھ کوسلیمان بن صرو نے کوفہ سے نکل کرمقامِ نخیلہ میں قیام کیا اور سترہ ہزار آدمی اس کے گرد جمع ہوگئے، عبداللہ بن یزید گورنرکوفہ نے مخالفت نہیں کی، مختار چونکہ الگ اپنی جماعت کے تیار کرنے میں مصروف تھا؛ حالانکہ مقصد سلیمان بن صرو کا بھی وہی تھا، جومختار ظاہر کرتا تھا؛ لہٰذا بعض شرفائے کوفہ کی تحریک سے عبداللہ بن یزید نے مختار کوپکڑکر قید کردیا، سلیمان بن صرو ۵/ربیع الثانی کونخیلہ کوسترہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ حدودِ شام کی طرف روانہ ہوا، روانگی کے وقت عبداللہ بن سعد بن نفیل نے سلیمان سے کہا کہ قریباً تمام قاتل حسین توکوفہ میں موجود ہیں، ان کوچھوڑ کراور کہاں قاتلین حسین کی تلاش میں جارہے ہو؟ سلیمان بن صرو نے کہا کہ یہ لوگ توسپاہی تھے جن کوحکم دینے والا سردار ابنِ زیاد تھا؛ لہٰذا اصل قاتل وہی ہے اور سب سے پہلے ہم کواسی کی گردن مارنی چاہیے، اس سے فارغ ہوکر باقی لوگوں کودرست کرنا بہت آسان کام ہے، نخیلہ سے روانہ ہوکریہ لوگ کربلا پہنچے وہاں مقتلِ حسین اور مدفن حسین پر (جس میں حضرت امام حسین کی لاش) بے سرمدفون تھی، خوب روئے دھوئے اور ایک دن رات قیام کرنے کے بعد روانہ ہوئے، کوچ ومقام کرتے ہوئے عین الوردہ کے مقام پرپہنچ کرخیمہ زن ہوئے، ان لوگوں کی خبر سن کرعبیداللہ بن زیاد نے جوموصل میں بحیثیت گورنر موصل مقیم تھا، حصین بن نمیر کوبارہ ہزار فوج دے کرمقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ سلیمان بن صرو ۲۱/جمادی الاوّل سنہ۶۵ھ کوعین الوردہ کے مقام پرپہنچا تھا، پانچ روز کے انتظار کے بعد ۲۶/جمادی الاوّل کوحصین بن نمیر بھی عین الوردہ پہنچ گئے؛ اسی روز لڑائی شروع ہوئی، شام تک کی لڑائیوں میں شامیوں کوسخت نقصان اُٹھانا پڑا؛ لیکن رات نے حائل ہوکر ان کا پردہ رکھ لیا، اگلے دن صبح کوآٹھ ہزار کا ایک کمکی لشکر شامیوں میں اور آملا، جوابنِ زیاد نے بھیجا تھا، آج بھی نمازِ فجر کے وقت سے مغرب کے وقت تک خوب زور وشور کی لڑائی جاری رہی اور کوئی فیصلہ نہ ہوا، رات دونوں لشکروں نے اُمید وبیم میں بسر کی، صبح ہوتے ہی ابن زیاد کا بھیجا ہوا دس ہزار کا ایک لشکر شامیوں کی مدد ے لیے آگیا اور آج بھی صبح سے شام تک لڑائی جاری رہی؛ لیکن سلیمان بن صرو اور تمام بڑے بڑے سردار کوفیوں کے کام آئے، بہت ہی تھوڑے سے آدمی باقی رہ گئے تھے، بقیۃ السیف سردار اپنے بچے ہوئے آدمیوں کولے کررات کی تاریکی میں وہاں سے چل دئیے، حصین بن نمیر نے ان کا تعاقب نہیں کیا، سلیمان بن صرو اور اس کے ہمراہیوں کوتوابین کے نام سے پکارتے تھے، یعنی ان لوگوں نے امام حسین کے ساتھ بے وفائی کرکے ان کوقتل کرانے کا جرم کیا؛ پھراس سے تائب ہوکر تلافی کے درپے ہوئے؛ اسی لیے جنگ عین الوردہ کوجنگ توابین بھی کہتے ہیں، یہ لوگ کسی سلطنت کی باقاعدہ فوج نہ تھے؛ بلکہ بطورِ خود جمع ہوکر ابنِ زیاد کے قتل کرنے کوگئے تھے اور خود بہت سے قتل اور تھوڑے سے بچ کرواپس آئے تھے۔