انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مقامِ تبوک جب لشکرِ اسلام چشمہ تبوک پر سرحد شام میں پہنچ گیا تو وہاں قیام کیا،ہر قل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبرِ حق سمجھتا تھا اس نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر سُنی تو ڈر کے مارے پیچھے ہٹ جانے میں بہتر ی سمجھی،عیسائی لشکر اور غسانی بادشاہ سب لشکر اسلام کی خبر سُن کر ادھر ادھر چلے گئے اور میدان خالی چھوڑ گئے،تبوک مدینے سے چودہ پندرہ منزل کے فاصلے پر تھا یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس روز کے قریب قیام کیا اس عرصہ میں اطیہ کا حاکم بجینہ بن رویۃ اظہارِ اطاعت کے لئے حاضرِ خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ ادا کرنے کی شرط پر اس سے صلح کرلی،اس نے جزیہ کی رقم اسی وقت ادا کردی پھر مقام جرباء کے لوگ آئے،انہوں نے بھی جزیہ ادا کرنے کا اقرار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صلح نامہ لکھ دیا ،اس کے بعد مقام آورخ کے باشندے حاضرِ خدمت ہوئے،انہوں نے بھی جزیہ کی ادائیگی کے اقرار پر صلح نامہ حاصل کیا۔ تبوک کے قریب دومۃ الجندل کا علاقہ تھا وہاں کا حاکم اکیدر بن عبدالملک بنو کندہ کے قبیلے سے تھا اور نصرانی مذہب رکھتا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا، اس کی طرف سے علامات سرکشی نمایاں ہوئیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو ایک دستہ فوج کے ہمراہ روانہ کیا اورفرمایا کہ اکیدر تم کو نیل گائے کا شکار کرتا ہوا ملے گا اس کو گرفتار کر لاؤ،حضرت خالد بن ولید اپنے ہمراہی سواروں کو لیکر روانہ ہوئے،رات بھر کی مسافت کے بعد صبح ہوتے ہی اکیدر کے قلعہ کے متصل پہنچے، وہاں اکیدر کو عجیب واقعہ پیش آیا، گرمی کا موسم،چاندنی رات، اکیدر اپنی بیوی کے ساتھ محل کی چھت پر آرام کررہا تھا،ایک نیل گائے نے جنگل کی طرف سے آکر محل کے دروازہ کو اپنے سینگوں سے کھرچنا شروع کیا اکیدر کی بیوی نے حیرت زدہ ہوکر اپنے شوہر کو متوجہ کیا،اکیدر اسی وقت اپنا گھوڑا تیار کرا کر اپنے بھائی حسان نامی کو ہمراہ لے کر اس نیل گائے کا شکار کرنے کے لئے نکلا،وہ ابھی نیل گائے کے پیچھے تھوڑی ہی دُور چلا ہوگا کہ حضرت خالد بن ولید معہ اپنے ہمراہیوں کے پہنچ گئے اور اس کو گھیر لیا،اکیدر اوراسکے بھائی نے مقابلہ کیا،اکیدر زندہ گرفتار ہوگیا اوراس کا بھائی مارا گیا حضرت خالد بن ولیدؓ نے اکیدرکی ریشمی خوبصورت قبا اُتار کر فوراً سوار کے ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگے روانہ کی اور خودا س کو لے کر بغداد میں حاضر خدمت ہوئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکید رکی جاں بخشی فرمائی، اس نے اطاعت اورجزیہ کی ادائیگی کا اقرار کیا اوراپنے قلعہ میں واپس آکر دو ہزار اونٹ آٹھ سو گھوڑے،چار سوزر ہیں،چار سونیزے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور پیش کش بھیجے اورصلح نامہ لکھا کر مطمئن ہوا۔