انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تفسیر میں گمراہی کے اسباب علم تفسیر جہاں ایک انتہائی سعادت کی چیز ہے وہاں اس نازک وادی میں قدم رکھنا بے حد خطرناک بھی ہے؛ کیونکہ انسان اگر کسی آیت کی غلط تشریح کر بیٹھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف ایک ایسی بات منسوب کررہا ہے جو اللہ تعالی نے نہیں کہی اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑی گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے جن لوگوں نے ضروری شرائط پوری کیے بغیر قرآن کریم میں دخل اندازی کی ہے وہ کافی محنت خرچ کرنے کے باوجود اس بد ترین گمراہی میں مبتلا ہوگئے ،تفسیر قرآن میں گمراہی کا ایک خطرناک سبب یہ ہے کہ انسان اہلیت وصلاحیت کو دیکھے بغیر قرآن کریم کے معاملے میں رائے زنی شروع کردے،خاص طور سے ہمارے زمانے میں گمراہی کے اس سبب نے بڑی قیامت ڈھائی ہے ،یہ غلط فہمی عام ہوتی جارہی ہے کہ صرف عربی زبان پڑھ لینے کے بعد انسان قرآن مجید کا عالم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد جس طرح سمجھ میں آئے قرآن کریم کی تفسیر کرسکتا ہے ،حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی علم وفن ایسا نہیں ہے جس میں زبان دانی کے بل بوتے پر مہارت پیدا ہوسکتی ہے،آج تک کبھی کسی ذی ہوش نے انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود یہ دعوی نہیں کیا ہوگا کہ وہ ڈاکٹر ہوگیا ہے ،اسی طرح کوئی شخص انجینیئرنگ کی کتابیں پڑھ کر انجینیئر ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا اور نہ قانون کی اعلی کتابیں دیکھ کر ماہر قانون کہلاسکتا ہے، اگر کوئی شخص ایسا دعوی کرے تویقیناً ساری دنیا اسے احمق اور بے وقوف کہے گی، اس لیے ہر شخص جانتا ہے کہ یہ تمام علوم وفنون محض زبان دانی اور نجی مطالعہ سے حاصل نہیں ہوتے ؛بلکہ ان کے لیے سالہا سال کی محنت درکار ہے، انھیں ماہر اساتذہ سے پڑھا جاتا ہے، اس کے لیے بڑی بڑی درسگاہوں میں کئی کئی امتحانات سے گزرنا ہوتا ہے، پھر کسی ماہر فن کے پاس رہ کر ان کا عملی تجربہ کرنا پڑتا ہے، تب کہیں انسان ان علوم کا مبتدی کہلانے کا مستحق ہوتا ہے ۔ جب ان علوم وفنون کا حال یہ ہے تو تفسیر قرآن جیسا علم محض عربی زبان سیکھ لینے کی بناء پر آخر کیسے حاصل ہوجائے گا ؟آپ گزشتہ صفحات میں دیکھ چکے ہیں کہ علم تفسیر میں درک حاصل کرنے کے لیے کتنی وسیع معلومات درکار ہوتی ہیں؛بلکہ وہ دنیا کی تمام کتابوں کے برخلاف اپنا ایک جدا گانہ اور ممتاز اسلوب رکھتا ہے ،لہٰذا کسی آیت کو قرار واقعی طور پر سمجھنے کے لیے اول تو یہ ضروری ہے کہ اس آیت کے مختلف قرأتوں ،اس موضوع کی تمام دوسری آیات اور ان کے متعلقات پر پوری نگاہ ہو، پھر آپ پیچھے دیکھ چکے ہیں کہ بہت سی آیتیں کسی خاص واقعاتی پس منظر سے وابستہ ہوتی ہیں جسے سبب نزول کہاجاتا ہے اور جب تک سبب نزول کی مکمل تحقیق نہ ہو اس کا پورا مفہوم نہیں سمجھا جاسکتا نیز یہ حقیقیت بھی آپ کے سامنے آچکی ہے قرآن کریم بہت سی مجمل باتوں کی تشریح وتفسیر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر چھوڑ دیتا ہے ۔ لہٰذا ہر آیت میں یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس تفسیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قولی یا عملی تعلیم موجود ہے یا نہیں اور اگر موجود ہے تو وہ تنقید روایات کے مسلّم اصولوںپر پوری اترتی ہے یا نہیں نیز صحابہ کرام نے جو نزول قرآن کے عینی شاہد تھے اس آیت کا کیا مطلب سمجھا تھا اگر اس بارے میں روایات کے درمیان کوئی تعارض واختلاف ہے تو اسے کیونکر رفع کیا جاسکتا ہے، پھر عربی زبان ایک وسیع زبان ہے جس میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی اور ایک ایک معنی کے لیے کئی کئی لفظ ہوتے ہیں، لہٰذا جب تک اُس زمانے کے اہل عرب کے محاورات پر عبور نہ ہو کسی معنی کی تعیین بہت مشکل ہوتی ہے، اس کے علاوہ صرف الفاظ کے لغوی معنی جاننے سے کام نہیں چلتا؛ کیونکہ عربی میں نحوی ترکیبوں کے اختلاف سے معانی میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ بات عربی لغت وادب پر مکمل عبور کے بغیر طے نہیں کی جاسکتی کہ اس مقام پر کونسی ترکیب محاوراتِ عرب کے زیادہ قریب ہے ؟اور سب سے آخر میں قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور اللہ تعالی اپنے کلام کے اسرار ومعارف ایسے شخص پر نہیں کھولتا جو اس کی نافرمانیوں پر کمر بستہ ہے ؛لہٰذا تفسیر قرآن کے لیے اللہ کی بندگی اس کے ساتھ تعلق خاص ،طاعت وتقوی اور حق پرستی کے بے لاگ جذبے کی ضرورت ہے ۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے لیے صرف عربی زبان کی معمولی واقفیت کام نہیں دے سکتی ؛بلکہ اس کے لیے علمِ اصولِ تفسیر،علم ِحدیث،اصول ِحدیث،اصول ِفقہ، علمِ فقہ ،علمِ نحو ،علمِ صرف،علمِ لغت،علم ِادب اور علمِ بلاغت میں ماہرانہ بصیرت اور اس کے ساتھ طہارت وتقوٰی ضروری ہے، ان ضروری شرائط کے بغیر تفسیر کی وادی میں قدم رکھنااپنے آپ کو گمراہی میں ڈال دینے کے مرادف ہے اور اسی طرز عمل کے بارے میںسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتھا کہ: "من قال فی القرن بغیر علم فلیتبوأ مقعد ہ من النار"۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷۴) جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے خودارشاد فرمایا ہے کہ "وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ" (القمر: ۱۷) "اور بلاشبہ ہم نے قرآن کریم کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیا ہے" اور جب قرآن کریم ایک آسان کتاب ہے تو اس کی تشریح کے لیے کسی لمبے چوڑے علم وفن کی ضرورت نہیں؛ لیکن یہ استدلال ایک شدید مغالطہ ہے جو خود کم فہمی اور سطحیت پر مبنی ہے واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں، سبق آموز واقعات اور عبرت وموعظت کے مضامین بیان کئے گئے ہیں، مثلاً دنیا کی ناپائیداری، جنت ودوزخ کے حالات، خوفِ خدا اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں اور زندگی کے دوسرے سیدھے سادے حقائق، اس قسم کی آیتیں بلاشبہ آسان ہیں اور جو شخص بھی عربی زبان سے واقف ہو وہ انھیں سمجھ کر نصیحت حاصل کرسکتا ہے، مذکورہ بالا آیت میں اسی قسم کی تعلیمات کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو ہم نے آسان کردیا ہے؛ چنانچہ خود اس آیت میں لفظ "لِلذِّکْرِ" (نصیحت کے واسطے) اس پر دلالت کررہا ہے۔ اس کے برخلاف دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں، اس قسم کی آیتوں کا کماحقہ سمجھنا اور ان سے احکام ومسائل مستنبط کرنا ہرشخص کا کام نہیں، جب تک اسلامی علوم میں بصیرت اور پختگی حاصل نہ ہو؛ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی مادری زبان اگرچہ عربی تھی اور عربی سمجھنے کے لیے انھیں کہیں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی؛ لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے، علامہ سیوطی نے امام ابوعبدالرحمن سلمی سے نقل کیا ہے کہ جن حضرات صحابہ نے سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے مثلاً حضرت عثمان بن عفان اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہ انھو ںنے ہمیں بتایا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کی دس آیتیں سیکھتے تو اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک ان آیتوں کے متعلق تمام علمی اور عملی باتوں کا احاطہ نہ کرلیں، وہ فرماتے تھے کہ"نتعلّمنَا القرآنَ والعلمَ والعَمَلَ جمیعًا" (الاتقان: ۲؍۱۷۶) "ہم نے قرآن اور علم وعمل ساتھ ساتھ سیکھا ہے" چنانچہ مؤطا امام مالک میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے صرف سورۂ بقرہ یاد کرنے میں پورے آٹھ سال صرف کئے اور مسنداحمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے جو شخص سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھ لیتا ہماری نگاہوں میں اُس کا مرتبہ بہت بلند ہوجاتا تھا۔ (الاتقان: ۲؍۱۷۶۔ نوع: ۷۷) غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات صحابہ جن کی مادری زبان عربی تھی، جو عربی کے شعروادب میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور جن کو لمبے لمبے قصیدے معمولی توجہ سے ازبر ہوجایا کرتے تھے، انھیں قرآن کریم کو یاد کرنے اور اس کے معانی سمجھنے کے لیے اتنی طویل مدت کی کیا ضرورت تھی کہ آٹھ آٹھ سال صرف ایک سورت پڑھنے میں خرچ ہوجائیں؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ قرآن کریم اور اس کے علوم کو سیکھنے کے لیے صرف عربی زبان کی مہارت کافی نہیں تھی؛ بلکہ اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور تعلیم سے فائدہ اٹھانا ضروری تھا، اب ظاہر ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عربی زبان کی مہارت اور نزولِ وحی کا براہِ راست مشاہدہ کرنے کے باوجود "عالم قرآن" بننے کے لیے باقاعدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت تھی تو نزولِ قرآن کے سینکڑوں سال بعد عربی کی معمولی شدبد پیدا کرکے یاصرف ترجمے دیکھ کر مفسر قرآن بننے کا دعویٰ کتنی بڑی جسارت اور علم ودین کے ساتھ کیسا افسوسناک مذاق ہے،؛چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ،حدیث نمبر:۲۸۷۵) جو شخص قرآن کریم کے معاملہ میں اپنی رائے سے کچھ گفتگو کرے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ اگر کوئی تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اپنی رائے سے ٹھیک بات بھی کہہ دے تب بھی وہ موجب عتاب قرار دیا گیا ہے ؛چنانچہ ارشاد ہے: "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ"۔ (ابوداؤد ، بَاب الْكَلَامِ فِي كِتَابِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ، حدیث نمبر :۳۱۶۷) جو شخص قرآن کریم کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ گفتگو کرے تو اگر صحیح بات بھی کہے تواس نے غلطی کی۔ دراصل یہ ایک خدائی نظام ہے اس کتاب مقدس کے الفاظ و معانی کی نگہداشت کا، تاکہ یہ کلام من گھڑت خیالات شخصی تشریحات کی ملاوٹ سے بالکل پاک وصاف رہے، اس لیے علمائے امت اورمفسرین کرام نے تن ومن قربان کرکے اس کی خدمت کی ہے اورصحیح وسقیم میں فرق،حق وباطل میں تمیز اورمراد ربانی ومنشائے نبوی کی تعیین کے لیے خود کو وقف کردیا اوراگر کسی مفسر نے راہِ حق سے سرِموانحراف کی کوشش کی یا اصول وضوابط کو فراموش کیا تو پھر وہ ساری امت کی نگاہوں میں مجرم قراردیا گیا، چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر و تشریح میں غیر تحقیقی واقعات کے بیان اوربے جا قصص وامثال کے اظہار پر پابندی لگادی اور تفسیر قرآن کریم میں اسرئیلی روایات پر اعتماد کرنے سے اجتناب اوران کو بیان کرنے کے لیے اصول متعین فرمادئے ہیں۔