انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ (م:۱۴۰۲ ھ/ ۱۹۸۲ء) ۱۔ہمارے بزرگوں کا مقولہ ہے"جو ہماری انتہاء کو دیکھے وہ ناکام اورجو ابتداء کو دیکھے وہ کامیاب،اس لئے کہ ابتدائی زندگی مجاہدوں میں گزرتی ہے اوراخیر میں فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں،اگر کوئی فتوحات کو دیکھ کر آخری زندگی کو معیار بنائے تو وہ ناکام ہوجائے گا"۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۵۵) ۲۔"انما الأعمال بالنیات" (تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) سارے تصوف کی ابتداء ہے اور "ان تعبد اللہ کأنک تراہ" (اللہ کی عبادت یوں کرو کہ تم اسے دیکھ رہے ہو) سارے تصوف کا منتہا ہے،اسی کو نسبت کہتے ہیں،اسی کو یاداشت اوراسی کو حضوری کہتے ہیں۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۶۳) ۳۔صحابہ کرام ؓ تو نبی کریمﷺ کی نظر کیمیا اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہوجاتے تھے اوران کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی،اس کے بعد اکابر اورحکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بنا پر علاج اورنسخے تجویز فرمائے ہیں۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۶۵) ۴۔بڑوں کی چیزوں پر بغیر تحقیق نہ اعتراض کرنا مناسب ہے نہ عمل کرنا مناسب ہے۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۶۵) ۵۔سالک اسے کہتے ہیں جو چلتا رہے،آخر زندگی تک آدمی کو کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۷۸) ۶۔اوقات بہت قیمتی ہیں زندگی کا جو وقت مل گیا ہے اس کی قدر پہچاننی چاہئے، حدیث میں آیا ہے: ((فلیتزود العبد من نفسہ لنفسہ ومن حیاتہ لموتہ ومن شبابہ لکبرہ ومن دنیاہ لآخرتہ)) "بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے سانسوں سے اپنے لئے اورزندگی میں موت سے پہلے،نوجوانی میں بڑھاپے سے پہلے اور اس دنیا میں آخرت سے پہلے زادراہ تیار کرلے" ۷۔میراتجربہ یہ ہے کہ روزہ سے قوت آتی ہے اورغیر رمضان میں فاقہ سے ضعف پیدا ہوتا ہے۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۴) ۸۔ مجھے اپنے اوپر تنقید بری نہیں لگتی بشرطیکہ اخلاص ومحبت سے ہو۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۸۵) ۹۔ایک مرتبہ طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ‘‘طالب علمو!تم تو بہت اونچے تھے مگر تم نے خود کو ضائع کیا،کبھی ہماری صورتوں کو دیکھ کر غیر مسلمان ہوتے تھے ،اب ہماری صورتوں کو دیکھ کر نفرت کرنے لگتے ہیں۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۸۸) ۱۰۔آدمی کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ دوسرے ہمارے ساتھ کیا کررہے ہیں ؛بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ مجھے شریعت،عرف وعقل اورقرابت کے اعتبار سے کیا معاملہ کرنا چاہئے۔ (صحبتے بااولیاء:۹۳) ۱۱۔تم لوگ اپنی صورتوں کو ایسا بناؤ کہ لوگ دیکھ کر محبت کریں (پھر ایک فارسی کا شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے) اس وقت کو یاد کرو کہ تمہاری ولادت کے وقت سب ہنس رہے تھے اور تو رورہا تھا اسی طرح تمہاری موت کے وقت یہ ہونا چاہئے کہ لوگ رو رہے ہوں اور تو ہنس رہےہو، ہنستا ہوا وہی جائے گا جس نے وہاں کے لئے کچھ تیاری کر رکھی ہوگی۔ ۱۲۔جو چیز دل میں جم جاتی ہے اس کا کرنا آسان ہوجاتا ہے،ہم نے سنا ہے کہ سنیما والے دوٹانگوں پر کھڑے رہ کر صبح کردیتے ہیں اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں بزرگ نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہے رات بھر تہجد پڑھتے رہے تو لوگ اس پر حیرت کرتے ہیں،اصل چیز ذوق وشوق ہے۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۱۳۲) ۱۳۔بے تحقیق کسی پر حکم لگانا کسی طرح درست نہیں،اگر تمہیں کسی کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ چور ہے تو اس کو اپنے کمرے میں نہ جانے دو،مگر بلا تحقیق حکم نہ لگاؤ۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۱۳۵) ۱۴۔کبھی کبھی شیطان آدمی کو غیر اہم چیز میں مشغول کردیتا ہے مطالعہ وتعلیم کے زمانے میں کثرت ونوافل میں مشغول ہونا کوئی اچھی چیز نہیں۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۱۴۰) ۱۵۔اپنے کاموں کے لئے اوقات مقرر کرو، اس کے درمیان چھوٹے بڑے کی پرواہ نہ ہونی چاہئے بعض لوگ اخلاق کا عذر کرتے ہیں کہ اگر کوئی آجائے تو اخلاق برتنا چاہئے،میں اس کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ اگر اس وقت قضاء حاجت کی ضرورت پیش آجائے تو کیا اس کا عذر نہ کرو گے: کیسے گلے رقیب کے کیا طعن اقرباء تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں (صحبتے با اولیاء ،ص:۱۴۸) ۱۶۔حافظ ابن القیمؒ نے "زاد المعاد" میں لکھا ہے کہ جو چیز جس موسم میں پیدا ہوتی ہے وہ اس میں نقصان دہ نہیں ہوتی،میری بھی یہی رائے ہے،کسی موسمی چیز پر تنقید کرنا گویا تخلیق پر تنقید ہے،مالک کے ہرکام میں حکمت ہے بشرطیکہ اس کا استعمال صحیح ہو، البتہ غلط استعمال سے وہ غلط شمار کی جائے گی۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۱۵۱) ۱۷۔ملازمت وغیرہ ضرور کرو حکم ہے،مگر دل اس میں نہ لگاؤ ؛بلکہ تقدیر پر اعتماد کرو،اس صورت میں اگر تنخواہ کم ہوگی،جب بھی پریشانی نہ ہوگی، مالک(یعنی اللہ تعالیٰ) سے مانگنے کی عادت ڈالو۔ ۱۸۔بڑوں کی چیزوں پر اعتراض نہ کرو،اگر تمہاری عقل مانے تو مان لو ورنہ ان کو اللہ کے حوالے کرو۔ (صحبتے بااولیاء،ص:۱۵۴) ۱۹۔مخالفت تو ہر ایک کی ہوتی ہے کوئی ایسا نہیں کہ سب اس کی تعریف کریں یا سب اس کی مذمت کریں،دنیا جو چاہے سمجھے،مگر اللہ سے معاملہ صاف رکھو،لوگ ہمارے ساتھ کیا کرتے ہیں یہ نہ دیکھو؛بلکہ اللہ تعالیٰ سے مانگو اوران کے حقوق ادا کرتے رہو۔ لوگ سمجھیں مجھے محروم وقار وتمکین وہ نہ سمجھیں کہ میری بزم کے قابل نہ رہا (صحبتے بااولیاء،ص:۱۷۶) ۲۰۔ہر بزرگ سے اعتقاد ضروری نہیں،مگر ان کی مخالفت نہ کرو، اگر تمہارا کسی بزرگ سے میل نہیں ہے تو ان کے پاس نہ جاؤ مگر مخالفت نہ کرو۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۱۷۶) ۲۱۔بڑوں سے انتساب اس وقت اچھا معلوم ہوتا ہے جب آدمی میں کوئی ذاتی کمال بھی ہو۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۱۷۸) ۲۲۔پریشانی کا سبب کوئی نہ کوئی معصیت ہوتی ہے۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۱۷۸) ۲۳۔اسباب ضروراختیار کرو،مگر مالک پر نظر رکھو،دینے والا وہی ہے،میں یہ نہیں کہتا کہ سبب اختیار نہ کیا جائے،مگر اس کو مقصود اصل نہ سمجھو۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۱۸۸) ۲۴۔اللہ جل جلالہ کے حکمتوں اوراحکام کے اسرار تک کسی کی رسائی ہوسکتی ہے،ہر کام میں جتنی حکمتیں پنہاں ہیں وہاں تک ہمارے ذہن نہیں پہنچ سکتے،لیکن بعض احکام کی حکمتیں آشکارا ہوتی جارہی ہیں،جن احکام کی حکمتیں سمجھ میں نہیں آتیں ان کو فقہاء تعبدی کہتے ہیں۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۲۰۳) ۲۵۔کسی کی آبروریزی بڑی سخت چیز ہے اگر کوئی کسی کو گرانا چاہے تو اس کو چاہے کہ جواب نہ دے۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۲۰۸) ۲۶۔حسد حرام اوررشک جائز ہے تم خود بڑھو اور امتیاز پیدا کرو۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۲۰۸) ۲۷۔ریا صرف اس کا نام نہیں کہ لوگ بڑا سمجھیں یہ تو شرک ہے،لوگوں کے دیکھنے کے سبب سے عمل کو چھوڑ دینا بھی ریا ہے۔ (صحبتے با اولیاء،ص:۲۰۹) (۱)اوقات بہت قیمتی ہیں زندگی کا جو وقت ملے اس کی قدر پہچاننی چاہئے ۔ (۲)مخالفت تو ہر ایک ک ہوتی ہے کوئی ایسا آدمی نہیں ہے کہ سب اس کی تعریف کریں یا اس کی مذمت کریں ، دنیا جو چاہے سمجھے مگر اللہ تعالیٰ سے معاملہ صاف رکھو لوگ ہمارے ساتھ کیا کرتے ہیں یہ نہ دیکھو بلکہ اللہ تعالیٰ سے مانگو اور ان کے حقوق ادا کرتے رہو۔