انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عربی تحریر میں یہود کا اثر اس سلسلہ میں یہ بحث بھی آتی ہے کہ عربی تحریر کا رواج سب سے پہلے کس کے ذریعہ ہوا؟ صاحب فتوح البلدان نے عربی خط پربحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب سے پہلے قبیلہ طے کے چند افراد نے عربی خط ایجاد کیا اور اس کے حروفِ تہجی کی بنیاد انھوں نے سریانی زبان پررکھی، اس کے بعد ان سے اہلِ انبار نے اور اہلِ انبار سے اہلِ حیرہ نے سیکھا؛ پھراہلِ حیرہ سے دومۃ الجندل کے حکمران بشربن عبدالملک نصرانی نے سیکھا اور اسی نے اس کومکہ میں رواج دیا (فتوح البلدان:۴۷۸) پھرآگے لکھا ہے کہ قبیلہ طے کے ان ہی افراد سے بنوکلب اور اہلِ وادی القریٰ نے بھی عربی تحریر سیکھی، اس بیان سے اتنا تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ عربوں ہی کی ایجاد ہے؛ مگراس کی ایجاد کا جوزمانہ اس میں بیان کیا گیا ہے وہ ظہورِ اسلام سے کچھ ہی پہلے کا ہے؛ حالانکہ عربی خط کی تاریخ اس سے قدیم ہے؛ معجم البلدان کا ایک دوسرا بیان یہ ہے: كان الكتاب بالعربية في الاوس والخزرج قليلا، وكان بعض اليهود قد علم كتاب العربية، وكان تعلمه الصبيان بالمدينة في الزمن الاول۔ (فتوح البلدان:۳/۵۸۳، شاملہ، موقع یعسوب۔ دوسرا مکتبہ، صفحہ نمبر:۳۷۹) ترجمہ: قبیلہ اوس اور خزرج کے لوگ عربی میں لکھنا پڑھنا بہت کم جانتے تھے، مدینہ کے بعض یہود نے بہت قدیم زمانہ سے عربی میں لکھنا پرھنا سیکھ لیا تھا اور اپنے بچوں کوبھی اس کی تعلیم دیتے تھے۔ اسی بیان کوسامنے رکھ کرتاریخ الیہود کے مصنف نے لکھا ہے: ان یھود یثرب کانوا اساتذۃ العرب فی تعلیم الکتاب العربیۃ۔ (تاریخ الیہود:۲۰) ترجمہ: یثرب کے یہود عربی تحریر میں عربوں کے استاذ تھے۔ بلاذری کے بیان سے یہ تونہیں معلوم ہوتا کہ پورے جزیرۂ عرب میں یہود کے ذریعہ عربی تحریر کا رواج ہوا؛ مگراتنی بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ شمالی حجاز میں یہود ہی کے ذریعہ اسے فروغ ہوا؛ یہ قرین قیاس بھی ہے، اس لیے کہ تحریر کی ترویج وترقی، تمدن وحضارت کے سایہ میں ہوتی ہے اور وہ اہلِ عرب میں مفقود تھی، بخلاف یہود کے کہ وہ عربوں کے مقابلہ میں زیادہ متمدن تھے؛ پھران کوتجارتی کاروبار میں بھی اس کی ضرورت پڑتی رہی ہوگی، ظہورِ اسلام کے وقت مکہ اور مدینہ میں جوچند پڑھے لکھے لوگ ملتے ہیں وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ تمدنی ضروریات نے انھیں لکھنے پڑھنے پرمجبور کیا؛ ورنہ اس سے پہلے یہ چیز ان میں ناپید تھی۔ (اس کی تفصیل کا موقع نہیں؛ ورنہ اس کے دلائل پیش کیے جاتے)