انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت بلوائیان مصر نے جب مدینہ منورہ میں دوبارہ واپس آکر خط لوگوں کو دکھایا اورحضرت عثمانِ غنیؓ نے حلفیہ اس خط سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا تو عبدالرحمن بن عدیس نے جو بلوائیوں کا سرغنہ تھا،کہا کہ تم اپنے اس قول اورحلف میں جھوٹے ہو تب بھی اور سچے ہو تب بھی تمہارا خلیفہ رکھنا کسی طرح جائز نہیں،کیونکہ اگرتم جھوٹ بول رہے ہو تو جھوٹے کو مسلمانوں کا خلیفہ نہیں ہونا چاہئے اوراگر سچے ہو تو ایسے ضعیف خلیفہ کو جس کی اجازت و اطلاع کے بغیر جو جس کا جی چاہے حکم لکھ کر بھیج دے خلیفہ نہیں رکھنا چاہئے،عبدالرحمن بن عدیس نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ آپ خود ہی خلافت چھوڑدیں،انہوں نے جواب میں کہا کہ میں اس کرتے کو جس کو خدانے مجھے پہنایا ہے،خود نہیں اتاروں گا،یعنی خلافت کے منصب کو خود نہیں چھوڑوں گا،اس کے بعد بلوائیوں نے ان کے مکان کا محاصرہ کرلیا اورسختی شروع کی،جب خلیفۂ وقت پر پانی بھی بند کردیا گیا،اورپانی کی نایابی سے تکلیف واذیت ہوئی تو حضرت عثمان غنیؓ اپنے مکان کی چھت پر چڑھے اوراپنے حقوق جتائے اوراپنا سابق الایمان ہونا بھی لوگوں کو یاد دلایا، اس تقریر کا بلوائیوں پر کچھ اثر ہوا کہ ان میں سے اکثر یہ کہنے لگے کہ بھائی اب ان کو جانے دو اوران سے درگذر کرولیکن اتنے میں مالک بن اشترآگیا،اس نے لوگوں کے مجمع کو پھر سمجھا یا کہ دیکھو کہیں دام فریب میں نہ آجا نا چنانچہ لوگ پھر مخالفت پر آمادہ ہوگئے،بلوائیوں کو جب یقین ہوگیا کہ ممالک اسلامیہ سے جو فوجیں آئیں گی وہ ضرور حضرت عثمانؓ کی حامی اور ہماری مخالف ہوں گی، تو انہوں نے یعنی اُن کے سرداروں نے حضرت عثمان غنیؓ کے شہید کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا، انہیں ایام میں حضرت عائشہؓ نے حج کا ارادہ کیا اوراپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو بلوایا کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں،تو محمد بن ابی بکرؓ نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کردیا ؛کیونکہ وہ بلوائیوں کے ساتھ شیر وشکر ہورہے تھے،حضرت حنظلہؓ کاتب وحی نے کہاکہ تم ام المومنینؓ کے ساتھ نہیں جاتے اور سفہائے عرب کی پیروی کرتے ہو یہ تمہاری شان کے بعید ہے ،محمد بن ابی بکرؓ نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا،پھر حنظلہؓ کوفہ کی طرف چلے گئے،حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ اور دوسرے صحابیوں نے اپنے اپنے دروازے بند کرلئے تھے نہ گھر سے باہر نکلتے تھے نہ کسی سے ملتے تھے حضرت ابن عباسؓ نے عثمان غنی کے دروازے پر موجود درہ کر بلوائیوں کا مقابلہ کیا اور اُن کو روکا لیکن اُن کو حضرت عثمانؓ نے امیر الحاج بناکر باصرار مکہ روانہ کیا،ورنہ وہ فرماتے تھے مجھ کو ان بلوائیوں سے جہاد کرنا حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے،حسن بن علیؓ،عبداللہ بن زبیرؓ،محمد بن طلحہؓ ،سعید بن العاصؓ،نے دروازہ کھولنے سے بلوائیوں کو روکا اورلڑکر ان کو پیچھے ہٹادیا۔ لیکن حضرت عثمان غنیؓ نے ان لوگوں کو قسمیں دے کر لڑنے سے روکا اورگھر کے اندر بلا لیا بلوائیوں نے دروازہ میں آگ لگادی اوراندر گھس آئے،ان لوگوں نے ان کو پھر مقابلہ کرکے باہر نکال دیا، اس وقت حضرت عثمان غنیؓ قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے"الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ"(یہ وہ لوگ ہیں جن لوگوں نے آکر خبر دی کہ مخالف لوگوں نے تمہارے ساتھ لڑنے کے لئے بھیڑ جمع کی ہے ذرا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس خبر کو سُن کر ان کے ایمان اور بھی مضبوط ہوگئے اور بول اٹھے کہ ہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے) تو حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہدلیا ہے، میں اس عہد پر قائم ہوں، اورتم ہر گز ان بلوائیوں کا مقابلہ اوران سے قتال بالکل نہ کرو، حضرت حسنؓ بن علیؓ کو حکم دیا کہ تم بھی اپنے باپ کے پاس چلے جاؤ، لیکن انہوں نے جانا پسند نہ کیا اور دروازہ پر بلوائیوں کو روکتے رہے۔ مغیرہ بن الاخنسؓ یہ حالت دیکھ کر تاب نہ لاسکے اپنے چند ہمراہیوں کو لے کر بلوائیوں کے مقابلہ پر آئے اورلڑکر شہید ہوئے،اسی طرح ابوہریرہؓ بھی یہ کہتے ہوئے: یا قوم مالی ادعو کم الی النجاۃ وتدعوننی الی النار (لوگو! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگے کی طرف بلاتے ہو) بلوائیوں پر ٹوٹ پڑے،حضرت عثمان غنیؓ کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے باصرار حضرت ابوہریرہؓ کو واپس بلوایا اورلڑائی سے باز رہنے کا حکم دیا، اسی عرصہ میں حضرت عبداللہ بن سلام تشریف لائے انہوں نے بلوائیوں کو سمجھانا اورفتنہ سے باز رکھنا چاہا،لیکن بجائے اس کے کہ ان کی نصیحت کابلوائیوں پر کچھ اثر ہوتا وہ عبداللہ بن سلام سے بھی لڑنے پر آمادہ ہوگئے،حضرت عثمان غنیؓ کے مکان میں جس قدر آدمی تھے ان میں سے کچھ تو کوٹھے پر چڑھے ہوئے تھے اور باغیوں کی کوشش اورنقل وحرکت کے نگراں تھے،کچھ لوگ دروازہ پر تھے اور باہر سے داخل ہونے اور گھسنے والے بلوائیوں کو اندر آنے سے روک رہے تھے،حضرت عثمان غنیؓ اوران کی بیوی نائلہ بنت الفرافصہ گھر میں تھے۔ بلوائیوں نے ہمسائے کے گھر میں داخل ہوکر اور دیوار کود کر حضرت عثمان پر حملہ کیا سب سے پہلے محمد بن ابی بکرؓ حضرت عثمان غنیؓ کے قریب پہنچے اوراُن کی داڑھی پکڑ کر کہا کہ اے نعثل(لمبی داڑھی والے) خدا تجھ کو رسوا کرے،حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں نعثل نہیں ؛بلکہ عثمان امیرالمومنین ہوں ،محمد بن ابی بکرؓ نے کہا تجھ کو اس بڑھاپے میں بھی خلافت کی ہوس ہے،حضرت عثمانؓ نے کہا کہ تمہارے باپ ہوتے تو وہ میرے اس بڑھاپے کی قدر کرتے اور میری اس داڑھی کو اس طرح نہ پکڑتے محمد بن ابی بکرؓ یہ سُن کر کچھ شرما گئے اورداڑھی چھوڑ کر واپس چلے گئے،اُن کے واپس جانے کے بعد بد معاشوں کا ایک گروہ اسی طرف سے دیوار کود کر اندر آیا، جس میں بلوائیوں کا ایک سرغنہ عبدالرحمن بن عدیس کنانہ بن بشیر عمرو بن عمق،عمیر بن حنابی، سودان بن حمران غافقی تھے،کنانہ بن بشیر نے آتے ہی حضرت عثمان غنیؓ پر تلوار چلائی، ان کی بیوی نائلہ نے فوراً آگے بڑھ کر تلوار کو ہاتھ سے روکا،ان کی انگلیاں کٹ کر الگ جا پڑیں،پھر دوسرا وار کیا ،جس سے آپ شہید ہوگئے،اس وقت آپ قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے،خون کے قطرات قرآن شریف کی آیت پر گرے "فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ" عمرو بن عمق نے آپ پر نیزے سے نو زخم پہنچائے۔ عمیر بن حنابی نے آگے بڑھ کر ٹھوکریں ماریں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں،وہ ہر ٹھوکر لگاتے ہوئے کہتا جاتا تھا،کیوں تم نے ہی میرے باپ کو قید کیا تھا جو بے چارہ حالت قید ہی میں مرگیا تھا،گھر کے اندر یہ قیامت برپا ہوگئی،چھت والوں اور دروازے والوں کو خبر ہی نہ ہوئی، آپ کی بیوی نائلہ نے آوازیں دیں تو لوگ چھت پر سے اترے اور دروازے کی طرف سے اندر متوجہ ہوئے بلوائی اپنا کام کرچکے تھے وہ بھاگے بعض ان میں سے حضرت عثمان کے غلاموں کے ہاتھوں سے مارے گئے،اب کسی کونہ دروازے پر رہنے کی ضرورت تھی نہ کسی کی حفاظت باقی رہی تھی،چاروں طرف سے بلوائیوں ،بدمعاشوں نے زور کیا،گھر کے اندر داخل ہوکر تمام گھر کا سامان لوٹ لیا حتی کہ جسم کے کپڑے تک بھی نہ چھوڑے اس بدامنی اورہلچل کے عالم میں بجلی کی طرح مدینہ میں عثمان غنیؓ کی شہادت کی خبر پھیل گئی،یہ حادثہ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ یوم جمعہ کو وقوع پذیر ہوا،تین دن تک حضرت عثمان غنیؓ کی لاش بے گور وکفن پڑی رہی آخر حکیم بن حزام اورجبیر بن مطعم دونوں حضرت علیؓ کے پاس گئے، انہوں نے دفن کرنے کی اجازت دی،رات کے وقت عشاء ومغرب کے درمیان جنازہ لے کر نکلے،جنازہ کے ساتھ زبیرؓ،حسنؓ،ابو جہم بن حذیفہؓ،مروان وغیرہ تھے،بلوائیوں نے جنازہ کی نماز پڑھنے اور دفن کرنے میں بھی رکاوٹ پیدا کرنی چاہی، مگر حضرت علیؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سختی سے ان کومنع کیا،جبیر بن مطعمؓ نے جنازہ کی نمازپڑھائی،بغیر غسل کے انہیں کپڑوں میں جو پہنے ہوئے تھے دفن کئے گئے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے وقت ممالکِ اسلامیہ میں مندرجہ ذیل عامل وامیر مامور تھے عبداللہ بن الحضرمی مکہ میں،قاسم بن ربیعہ ثقفی طائف میں ،یعلی بن مینہ صنعاء میں عبداللہ بن ربیعہ جند میں،عبداللہ بن عامل بصرہ میں،معاویہ بن ابو سفیان ملکِ شام میں، عبدالرحمن بن خالد حمص میں،حبیب بن مسلمہ قنسرین میں، ابولاعور سلمی اردن میں، عبداللہ بن قیس فزاری بحرین میں عقلمہ بن حکیم کندی معاویہ کی طرف سے فلسطین میں،ابو موسیٰ اشعری کوفہ میں،امام اورقعقاع بن عمرو سالارلشکر تھے،جابر مزنی اورسماک انصاری دونوں خراج سواد پر مامور تھے،جریر بن عبداللہ قرقیسیا میں،اشعث بن قیس آذربائیجان میں،سائب بن اقرع اصفہان میں گورنر مقرر تھے مدینہ منورہ میں بیت المال کے افسر عقبہ بن عمرو اورقضا پر زبیر بن ثابت مامور تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ ۸۲سال کی عمر میں بارہ سال خلافت کرکے فوت ہوئے،جنت البقیع کے قریب مدفون ہوئے، آپ کے کل گیارہ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہوئی تھیں۔