انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنت میں کھیتی جنت کی کھیتی اور کاشتکاری: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَفِيهَا مَاتَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ۔ (الزخرف:۷۱) ترجمہ:اور وہاں (جنت میں) وہ چیزیں ملیں گی جن کودل چاہے گا اور جن سے آنکھوں کولذت ہوگی (لہٰذا اگرکوئی جنت میں کاشتکاری کی خواہش کریگا تووہ بھی اس آیت کی روشنی میں ثابت ہوتی ہے)۔ حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کچھ بیان فرمارہے تھے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی شخص بھی بیٹھا تھا (آپ نے فرمایا) جنتیوں میں ایک شخص اپنے پروردگار جل شانہ سے کھیتی کرنے کے لیے درخواست کریگا تووہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم نے جوچاہا ہے وہ تمھیں نہیں ملا؟ وہ عرض کریگا کیوں نہیں؟ لیکن میں پسند کرتا ہوں کہ کاشتکاری کروں تووہ کاشتکاری کریگا اور بیج بوئے گا تووہ فوراً ہی اُگ جائے گا اور برابر (کپڑا) ہوجائے گا اور کاٹ لیا جائے گا اور اس کا ذخیرہ پہاڑوں کی طرح ڈھیر کی شکل میں نظر آئیگا، تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے: اے انسان! یہ لے تجھے توکوئی چیز سیر نہیں کرسکتی تو(یہ سن کر) دیہاتی نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ (یعنی جنت میں کھیتی کی طلب کرنے والا) کوئی قریشی یاانصاری ہی ہوگا؛ کیونکہ یہی حضرات کاشتکاری کرتے ہیں ہم لوگ توکھیتوں والے ہیں ہی نہیں، تورسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم (یہ سن کر) مسکرادیئے۔ (بخاری:۷۵۱۹۔ البدورالسافرہ۲۱۴۰) حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِذَادَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَارَبِّ ائذن لِىْ فِى الزَّرْعِِ فَأَذن لَه فِیْہِ فيبذر فِیْہِ فَلَايَلْتَفِتُ حَتَّى يَکُوْنُ سُنبلہ اثِنْتَىْ عشرة ذراعًا ثُمَّ لَايَبْرَحُ مَكَانَه حَتَّى يَكُوْنَ مِنْهُ رُكَامٌ أَمْثَالُ الْجِبَالِ۔ (البدورالسافرہ:۲۱۴۱) ترجمہ: جنت والے جب جنت میں داخل ہوجائیں گے توایک شخص کھڑے ہوکر عرض کریگا یارب! آپ مجھے کاشتکاری کی اجازت دیدیں تواس کوجنت میں کاشت کی اجازت دی جائے گی تووہ اس میں بیج بوئے گا، وہ مڑا نہیں ہوگا کہ اس کی بالیں بارہ ہاتھ کی ہوچکی ہوں گی، ابھی وہ وہیں پر ہوگا کہ (کٹ کر) پہاڑوں کی طرح اس کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت میں ایک شحص اپنے تکیہ کی ٹیک لگائے لیٹا ہوا ہوگا اور اپنے لب ہلائے بغیر اپنے دل میں کہے گا: کاش کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اجازت عنایت فرماتے تومیں کاشتکاری کرتا، تواس کومعلوم بھی نہ ہوگا کہ جنت کے دروازوں کوتھامے ہوئے بہت سے فرشتے (آ) موجود ہوں گے اور عرض کریں گے سلام علیکم، تووہ سیدھا بیٹھ جائے گا تووہ اس سے کہیں گے: آپ کا رب فرماتے ہے کہ آپ نے اپنے دل میں ایک شئے کی تمنا کی ہے جس کا اس کوعلم ہے اس نے یہ بیج روانہ کئے ہیں اور فرمایا ہے کہ ان کوبودیں تووہ (ان کو) اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ڈالدے گا تووہ پہاڑوں کی طرح پھوٹ پڑیں گے اس کی تمنا کے مطابق جیسے وہ چاہتا ہوگا؛ پھرعرش کے اوپر سے اللہ تعالیٰ اس کوفرمائیں گے اے آدم زاد! خوب کھالے توسیر ہونے کا نہیں۔ (البدورالسافرہ:۲۱۴۲، بحوالہ حلیہ ابونعیم۔ حادی الارواح:۲۳۵)