انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۷)حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ (۴۴ھ) ذہبی وخطیب تبریزیؒ نے سنِ وفات (۵۲ھ) لکھا ہے مکہ مکرمہ میں اسلام لائے، حبشہ کی طرف ہجرت کی، حضورﷺ نے انہیں یمن کا والی بنایا، حضرت عمرؓ نے انہیں بصرہ کا والی بنایا اور آپؓ کی اور دیگر صحابہؓ (جن میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بھی تھے) کی آمد سے عراق مرکزِ علم بن چکا تھا، ان دنوں علم سے مراد حدیث اور فقہ تھے، حضرت علیؓ نے معرکۂ تحکیم میں آپؓ (حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ) کواپنا نمائندہ بنایا تھا، یہ مسلسل واقعات آپؓ کی عظمتِ شخصی اور آپؓ کی فقہ وفضیلت کے تاریخی شواہد ہیں، قرآن کریم بہترین آواز سے پڑھنا آپؓ پر ختم تھا؛ تاہم آپؓ امام کے پیچھے قرآن پڑھنے کے قائل نہ تھے، آپؓ نے آنحضرتﷺ سے یہ روایت کی: "وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوا"۔ (مسلم، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۶۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:امام جب قرآن پڑھے توتم چپ رہو۔ حضورﷺ کے عہد میں جوچار صحابہؓ فتوےٰ دینے کے مجاز تھے، آپؓ بھی اُن میں تھے، صفوان بن سلیمؒ (۱۳۲ھ) کہتے ہیں: "لم یکن یفتی فی زمن النبیﷺ غیرعمر ومعاذ وعلی وابی موسیٰ"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳) حافظ ذہبیؒ آپ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: "کان عالماً، عاملاً، صالحاً، تالیاً، لکتاب اللہ الیہ المنتہیٰ فی حسن الصوت بالقرآن روی علماً طیباً مبارکاً"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲) ترجمہ: آپ عالم تھے، عامل تھے، نیک تھے، اللہ کی کتاب کوپڑھنے والے تھے، قرآن کواچھی آواز سے پڑھنے میں چوٹی کے تھے، آپ نے علم پاکیزہ اور بابرکت روایت کیا ہے۔ آپؓ نے ایک دفعہ حضرت عمرؓ کویہ حدیث سنائی "اذا سلم احدکم ثلٰثاً فلم یجب فلیرجع" جب تم میں سے کوئی (کسی کے دروازے پر) تین دفعہ سلام کہے اور اسے جواب نہ ملے تواُسے واپس لوٹ جانا چاہیے، تو حضرت عمرؓ نے اس پر مزید شہادت طلب کی، حضرت ابوموسیٰؓ بہت گھبرائے؛ یہاں تک کہ آپؓ کو ایک انصاری کے ہاں اس کی تائید ملی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ میں اپنے اکابر کے تعمیلِ حکم کا جذبہ کس درجہ کارفرما تھا، حضرت عمرؓ بھی آپؓ پر معاذ اللہ کوئی الزام نہ لگارہے تھے، صرف دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ کواحتیاط فی الروایۃ کا سبق دینا مقصود تھا، نہ آپ رضی اللہ عنہ کی غرض یہ تھی کہ خبرِواحد کا اعتبار نہ کیا جائے، حضرت عمرؓ نے خود فرمایا: "أَمَاإِنِّي لَمْ أَتَّهِمْكَ وَلَكِنْ خَشِيتُ أَنْ يَتَقَوَّلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ "۔ (مؤطا امام مالکؒ، كِتَاب الْجَامِعِ،وحَدَّثَنِي مَالِك عَنْ الثِّقَةِ عِنْدَهُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ،حدیث نمبر:۱۵۲۰، شاملہ،موقع الإسلام) ترجمہ: میں آپؓ کو متھم نہیں کررہا تھا میں صرف اس سے ڈراہوا تھا کہ لوگ حضورﷺ پر اپنی طرف سے باتیں نہ لگانے لگیں۔ یاد رکھئے کسی صحابی پر جھوٹ کا الزام نہیں لگتا، صحابہ سب عادل ہیں۔