انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زکریا بن ابی زائدہؒ نام ونسب نام زکریا اورابو یحییٰ کنیت تھی،پورا نسب نامہ یہ ہے،زکریا بن ابی زائدہ خالد بن میمون بن فیروز،ایک دوسرے قول کے مطابق ان کے والد ابو زائدہ کا نام ہیرہ تھا،عمروبن عبداللہ الوداعی سے نسبتِ ولاء رکھتے تھےوادعہ قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ ہے اس بنا پر زکریا بن ابی زائدہ الوداعی اورہمدانی کہے جاتے ہیں (تہذیب التہذیب:۳/۳۲۹) علامہ ابن سعد نے ابی زائدہ کو عمرو بن عبداللہ کے بجائے محمد بن المنتشر ہمدانی کا غلام بتایا ہے۔ (طبقات ابن سعد:۶/۲۲۷) فضل وکمال علم وفضل کے اعتبار سے وہ زمرہ اتباع تابعین میں شمار کیے جاتے ہیں ان کی جلالت مرتبت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے کہ ان کے صاحبزادے یحییٰ بن زکریا بھی اپنے والد کے فیض صحبت سے بہرہ ور ہوکر خود بھی اتباع تابعین میں بلند مرتبہ ہوئے،حدیث وفقہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ حدیث حافظ ابن حجرؒ نے ان کا شمار طبقہ سادسہ کے محدثین میں کیا ہے اوراہلِ نظر سے مخفی نہیں کہ اخیار وصلحاء امت کا یہ وہ طبقہ ہے ، جنہوں نے صحابہ کرام اورتابعین عظام کے چراغوں سے اپنے دلوں کی دنیا منور کی تھی،انہوں نے اپنےگردو پیش کی پوری فضا کو قال اللہ وقال الرسولﷺ کے سرمدی نغموں سے گونجتاپایا تھا،چنانچہ یحییٰ بھی اس معدنِ علم سے کندن بن کر نکلے،انہوں نے اس علمی ماحول سے پوری طرح استفادہ کیا تھا اورسرمد آرائے روزگار ائمہ سے حدیث وفقہ کی تحصیل کی تھی۔ زکریا کو مشہور تابعی ابو اسحاق سبیعی سے خصوصی تلمذ کا شرف حاصل تھا،ان کےعلاوہ جن علماء سے انہوں نے اپنی علمی تشنگی فرو کی ان میں عامر الشعبی ،فراس ،سماک بن حزب سعد بن ابراہیم،خالد بن سلمہ، مصعب بن شعبہ، عبدالملک بن عمیر کے اسمائے گرامی ممتاز ہیں۔ (خلاصہ تذہیب وتہذیب الکمال: ) تلامذہ خود زکریا بن ابی زائدہ کے خرمنِ علم سے خوشہ چینی کرنے والوں میں ان کے صاحبزادے یحییٰ کے علاوہ سفیان ثوری،شعبہ عبداللہ بن مبارک،عیسیٰ بن یونس یحییٰ بن سعید القطان،وکیع بن الجراح،ابو اسامہ ابو نعیم، جیسے اکابر شامل ہیں۔ ثقاہت اورتدریس ان کی عدالت وثقاہت کے بارے میں محققین مختلف الرائے ہیں (میزان الاعتدال للذہبی:۱/۳۴۹،وتہذیب التہذیب:۳/۳۲۹) تاہم انہیں ضعیف کسی نے بھی قرار نہیں دیا ہے،زیادہ سے زیادہ بعض علماء نے ان کی طرف تدلیس کی نسبت بیان کردیتے تھے،ناقدین فن کے نزدیک یہ چیز ایک عیب تصور کی جاتی ہے،لیکن احناف کے نزدیک ثقات کی مدلس روایات مقبول ہیں،جیسا کہ زکریا کی ثقاہت مسلم ہے۔ علماء کی ایک بڑی جماعت نے انہیں ثقہ اورصدوق قراردیا ہے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں: "کان ثقۃ کثیرا الحدیث" (طبقات ابن سعد:۶/۲۲۷) حافظ ذہبی انہیں صدوق مشہور حافظ کہتے ہیں۔ (میزان الاعتدال:۱/۳۴۹) امام احمد اورابوداؤد نے بھی تصدیق کی ہے (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال) امام نسائی یعقوب بن سفیان اورابوبکر البزاز بھی ان کی ثقاہت کے معترف ہیں (تہذیب التہذیب:۳/۳۳۰) حافظ ذہبی انہیں صدوق مشہور حافظ کہتے ہیں۔ (میزان الاعتدال:۱/۳۴۹) امام احمد اور ابوداؤد نے بھی تصدیق کی ہے (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال)امام نسائی،یعقوب بن سفیان اورابوبکر البزاز بھی ان کی ثقاہت کے معترف ہیں (تہذیب التہذیب:۳/۳۲۰)مزید برآں ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا بہت نمایاں ذکر کیا ہے۔ (ایضاً) افتاء وقضاءت فقہ وحدیث میں عبور کلی کے ساتھ افتاء وقضاءت پر بھی کامل قدرت حاصل تھی،اس بنا پر کوفہ کی مسند قضا کی بھی زینت بنے،ابن قانع کا بیان ہے: "کان قاضیاً بالکوفۃ" (ایضاً) علماء کی آراء زکریا کی جلالتِ شان کا اعتراف ان کے معاصر اوربعد کے علماء دونوں نے کیا ہے ،امام احمد کا قول ہے کہ جب ابو اسحاق سبیعی کی کسی روایت کے بارے میں ان کے شاگردان رشید زکریا اوراسرائیل میں اختلاف رائے پیدا ہوجائے تو میرے نزدیک زکریا کا قول مرجع ہوگا،ابن معین کہتے ہیں کہ زکریا مجھے ہر چیز میں سب سے زیادہ محبوب ہیں،عجلی کا بیان ہے کہ وہ ثقہ تھے،لیکن انہوں نے ابو اسحاق سبیعی سے ان کی آخری زندگی میں سماعت کی تھی،جبکہ انسان کے دماغی وذہنی قوی الخطاط پذیر ہوجاتے ہیں، اس لیے محدثین اس زمانہ حیات کی روایتوں کو بلند درجہ نہیں دیتے؛چنانچہ ائمہ فن نے زکریا کی ثقاہت کا اعتراف کرنے کے باوصف ان کی ان روایات کی کمزوری کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ (طبقات ابن سعد:۶/۲۲۷) وفات باختلافِ روایت ۱۴۸ھ یا ۱۴۹ھ میں اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی۔ (طبقات ابن سعد:۶/۲۲۷)