انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسوۂ صحابہ پیش لفظ انسان کے فرائض میں سب سے مقدم اورسب سے اہم فرض یہ ہے کہ اخلا ق انسانی کی اصلاح اورنفوس بشری کی تہذیب و تکمیل کی جائے علوم و فنون ،تہذیب و تمدن ،صنعت وحرفت، غرض وہ تمام چیزیں جو ہمیشہ سے دنیا کا سرمایہ ناز رہی ہیں، آسمان کی ہزاروں گردشوں اورزمانہ کے ہزاروں انقلابات کے بعد عالم وجود میں آئیں، لیکن تہذیب نفوس انسانی کا فرض اس قدر ضروری تھا کہ دنیا کا پہلا انسان (آدم علیہ السلام) دنیا میں آیا تو اس کی ذمہ داریوں سے گرانبار ہوکر آیا، حضرت آدمؑ کے بعد اس سلسلے کو زیادہ ترقی ہوئی اوربڑے بڑے اولوالعزم پیغمبر پیدا ہوئے ؛لیکن ان سب کے فضائل ومناقب کا مجموعہ محمد ﷺ کی ذات پاک تھی ؛جہاں پہنچ کر یہ سلسلہ ابدالآباد تک کے لئے مکمل ہوگیا اور وحی الہی نے یہ مژدہ سنایا: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ (مائدہ:۳) آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا،تم پر اپنی نعمت پوری کردی،اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر(ہمیشہ کےلیے) پسند کرلیا۔ اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ سرورکائنات محمد ﷺ نے اس مقدس فرض کو کس وسعت اورکس جامعیت کے ساتھ ادا کیا اورنفوس بشریہ کو تہذیب اخلاق کے کس کمال تک پہنچایا؟ تو اس کا جواب ہم کو اسلام کے ان مقدس بزرگوں کے فضائل اخلاق کی خاموش زبان سے دینا ہوگا، جو آپ کے اخلاق و اعمال کے مظہراتم،آپ کے تربیت یافتہ، آپ کی ہدایت وارشاد کے مخاطبِ اول اورآپ کے فیضِ صحبت سے شب وروز استفادہ کرنے والے تھے۔ اس مقدس جماعت کی نشوونما بھی دنیا کے حیرت انگیز واقعات کی ایک عجیب و غریب مثال ہے، اول اول جب رسول اللہ ﷺ نے اہل عرب کو عقائد و اعمال کے اصلاح کی دعوت دی تو ریگستان عرب کے ایک ذرہ نے بھی اس کا جواب نہ دیا؛ لیکن صداقت کے اثر اورتربیت پذیری کے جوہر نے چند ہی دنوں میں آپ کے آگے پیچھے ،دائیں بائیں غرض !ہر طرف ان بزرگوں کی قطاریں کھڑی کردیں جن کے وجود سے دعوتِ نوح، بعثتِ موسیٰ اورنبوتِ عیسیٰ کی تاریخ اکثر خالی ہے، ابتداءً ان بزرگوں کا نام انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا، ہجرت کے زمانہ تک ان میں معتدبہ اضافہ ہوا، اورغزوہ ٔبدر کی صف میں تین سو تیرہ سرفروش تیغ بکف نظر آئے، فتح مکہ میں یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی اور حجۃ الوداع میں تیرہ ہزار صحابہؓ آپ کے جلو میں روانہ ہوئے؛لیکن جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو یہ تعداد لاکھوں سے متجاوز تھی۔ دوسرے پیغمبروں پر آپ ﷺ کو صرف یہی فضیلت حاصل نہیں ہے کہ آپﷺ کے اصحابؓ کی تعداد اکثر پیغمبروں کے اصحاب سے زیادہ ہے؛بلکہ آپ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ کے نورہدایت نے جن ذروں کو روشن کردیا تھا وہ اب تک اسی آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں اور ہدایت کا راستہ ڈھونڈنے والےانہیں ستاروں کی روشنی میں )اَصْحَابِیْ کَا لنُّجُوْمِ( اپنی منزل مقصود کا پتہ لگارہے ہیں، اصحاب محمدﷺ کے ایک ایک خط و خال کو ہم تاریخ کےآئینہ میں دیکھ سکتے ہیں اوراس مرقع کو مذہبی علمی ،سیاسی ،اخلاقی غرض ہر حیثیت سے دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔ تاریخ کے اسی خاص سلسلے کا نام سیر الصحابہ ہے اور علمائے اسلام کو اس سلسلہ کی تدوین و ترتیب کا خیال اس بنا پر پیدا ہوا کہ روایات میں سب سے پہلے صحابہؓ کرام ہی کا نام آتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اول اول محدثین نے اس کی طرف توجہ کی اورصحابہ کرام کے حالات میں سب سے پہلی کتاب امام بخاری،المتوفی ۲۵۶ھ نے تصنیف کی جس کا نام اسماء الصحابہ تھا اورجس کا کچھ حصہ علامہ ابوالقاسم بغوی کبیر نے اپنی کتاب معجم الصحابہ میں نقل کیا ہے،(مقدمہ اصابہ وکشف الظنون،۱۲) اس کے بعد اس فن کو بہت زیادہ ترقی ہوئی اوربکثرت علماء مثلاً ابو بکر بن ابوداؤد، عبدان، مطین، ابوعلی بن السکن، ابو حفص بن شاہین، ابومنصور مادردی، ابو حاتم بن حبان اورطبرانی وغیرہ نے اس موضوع پر کتابیں تصنیف کیں؛ لیکن ان میں سب سے زیادہ ابوعبداللہ مندہ ،ابونعیم اورقاضی ابوعمر بن عبدالبر کی کتابیں مقبول ہوئیں اورانہیں کو تمام متاخرین نے اپنی کتابوں کا ماخذ قرار دیا۔ یہ کتابیں اگرچہ قدماء کی کتابوں سے زیادہ جامع تھیں تاہم ان میں بھی بہت سے صحابہ کے حالات رہ گئے تھے، اس لئے متعدد علماء نے ان پر ذیل لکھے ،چنانچہ ابوالموسی المدینی نے عبداللہ بن مندہ کی کتاب پر اورابوبکر بن فتحون اورابوعلی غسانی نے قاضی عبدالبر کی تصنیف پر ذیل لکھا اوراس میں بہت سے صحابہ کے حالات کا اضافہ کیا، لیکن یہ تمام کتابیں ناپید ہیں، صرف قاضی عبدالبر کی کتاب استیعاب دوجلدوں میں موجود ہے جس میں ساڑھے تین ہزار صحابہ کے حالات مذکور ہیں اورابن فتحون نے جو ذیل لکھا تھا، اس میں قریب قریب اسی قدر ناموں کا اوراضافہ کیا تھا۔ (مقدمہ اصابہ واسدالغابہ،۱۲) ان سب کے بعد علامہ ابن اثیر جزری( المتوفی،۶۳۰ھ) نے صحابہؓ کے حالات میں ایک نہایت مبسوط کتاب لکھی جس کا نام "اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ" ہے، اس کتاب میں سات ہزار پانچ سو چون (۷۵۵۴)صحابہ کے حالات ہیں اوراس کا ماخذا ابن مندہ، قاضی عبدالبر، وابو نعیم اورابو موسیٰ کی کتابیں ہیں جن میں صحابہ کے جس قدر حالات مذکورتھے، علامہ موصوف نے ان سب کو اپنی کتاب میں یکجا جمع کردیا اورذیل ابو علی غسانی وغیرہ کی مدد سے بہت سے ناموں کا اضافہ کیا اس کے ساتھ اور بھی بہت سی کتابوں سے بھی مددلی اور سب کی مختلف خصوصیات کوایک جگہ جمع کردیا؛لیکن اس کتاب میں بہت سے ایسے لوگوں کے نام آگئے تھے جو صحابی نہ تھے، اس لیے علامہ ذہبی نے تجرید الصحابہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ان غلطیوں کی اصلاح کی اورآٹھ ہزار صحابہ کے ناموں کا اوراضافہ کیا ۔ (مقدمہ تجریداسماء الصحابہ،مقدمہ اسد الغابہ ومقدمہ اصابہ) اس کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی المتوفی ۸۵۴ھ نے پانچ جلدوں میں ایک نہایت مفصل کتاب لکھی جس کا نام اصابہ فی تمیز الصحابہ رکھا اوراس میں ان تمام صحابہ کے علاوہ جو استیعاب ذیل استیعاب اوراسدالغابہ میں مذکور ہیں اور بہت سے صحابہ کے حالات کا اضافہ کیا اورحافظ جلال الدین سیوطی نے عین الاصابہ کے نام سے اس کا ایک خلاصہ لکھا جو ناتمام رہا۔ (کشف الظنون ذکر اصابہ وعین الاصابہ ۱۲) لیکن بایں ہمہ ضبط واستقصا یہ کل سرمایہ اس دریا کا صرف ایک قطرہ ہے جو مدتوں ریگستان عرب میں موجیں مارتا رہا، ابوزرعہ کا قول ہے کہ جن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا یا آپ سے سنا ان کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی۔ (مقدمہ تجرید اسماء الصحابہ،۱۲) بہرحال صحابہ کے حالات میں سردست جو کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں وہ صرف یہی استیعاب ،اسد الغابہ، اصابہ اور تجرید اسماء الصحابہ ہیں؛لیکن ان کے علاوہ اوربھی بہت سی کتابوں سے صحابہ کے حالات معلوم ہوسکتے ہیں؛ مثلاً حافظ جلال الدین سیوطی نے حسن المحاضرہ میں ان تمام صحابہ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے مصرمیں قیام کیا ہے،طبقات الحفاظ اورطبری میں بھی اکابر صحابہ کے حالات مذکور ہیں اورطبقات ابن سعدکی متعدد جلدوں میں بھی صحابہ کے مفصل حالات ملتے ہیں۔ لیکن اب تک بار بار مشک کے رگڑنے کی ضرورت باقی ہے،یہ سچ ہے کہ ان کتابوں کے ذریعہ سے صحابہ کرام کے عام حالات معلوم ہوسکتے ہیں؛ لیکن اس زمانہ کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ صحابہ کرام کی مقدس زندگی کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگوں میں شوق عمل پیدا ہو اور اس مثال کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود بخود اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کی طرف مائل ہوں۔ انبیاء صوفیہ اورپیشوایان مذہب کے متعلق جو مبالغہ آمیز اورموضوع روایتیں پیدا ہوجاتی ہیں وہ قدرتی طورپر صحابہ کرام کے متعلق بھی پیدا ہوئیں اوراس شدت کے ساتھ اسلامی لڑیچر میں سرایت کر گئیں کہ عام طورپر فضائل ومناقب کے لفظ سے اس قسم کی روایتوں کی طرف ذہن متبادرہوتا ہے؛لیکن اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس قسم کی دور ازکار روایات کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے، اورتمام واقعات اسماء الرجال اورتاریخ کی مستند کتابوں سے بہم پہنچائے گئے ہیں اورجہاں تک ہوسکا ہے تاریخ ورجال کی کتابوں کے علاوہ صحاح ستہ بالخصوص صحیح بخاری اورصحیح مسلم سے مدد لی گئی ہے۔ کتاب کی مقبولیت و عدم ِمقبولیت کا تمام تردار ومدار خدا کے فضل وکرم ،قوم کے مذہبی احساس اورذوق صحیح پر ہے؛ لیکن کتاب کی ترتیب میں جو کدوکاش کی گئی ہے ،صحت کا جو التزام کیا گیا ہے، فضائل اخلاق کے جو عنوانات قائم کیے گئے ہیں ،صحابہ کرام کی زندگی کے ایک ایک خط و خال کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے یہ دعویٰ بیجا نہ ہوگا کہ اس موضوع پر آج تک ایسی جامع کتاب اردو فارسی کیا عربی میں بھی نہیں لکھی گئی لیکن اس کتاب کی تدوین و تالیف کا یہ مقصد نہیں ہے کہ قوم سے صرف حسن قبول کا تمغہ حاصل کیا جائے، بلکہ اصلی مقصد یہ ہے کہ خداوند تعالی اس کتاب کی برکت سے قوم میں وہی اخلاقی، مذہبی اور علمی روح پیدا کردے جو صحابہ کرام کے قالب میں موجود تھی، اس بنا پر اگر قوم نے اس حیثیت سے اس کتاب کا خیر مقدم کیا تو وہی ان ناچیز کوششوں کا صلہ ہوگا، جو اس کتاب کی تدوین و ترتیب میں کی گئ ہیں، السعی منی والاتمام من اللہ۔ (تلخیص دیباچہ سیر صحابہ جلد نمبر:۵)