انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بنو قریظہ کی بد عہدی کا حشر حضرت سعد بن معاذؓ جو غزوہ خندق کے زمانے میں بنو قریظہ کو سمجھا بجھا کر راہِ راست پر رکھنے کے لئے بنو قریظہ کے پاس اُن کے قلعہ میں بھیجے گئے تھے اور بنو قریظہ نے نہایت درشتی وسختی کے ساتھ اُن کو ناکام واپس بھیجا تھا،بنو قریظہ کے ہم عہد اور اُن کی قوم سے محبت کا تعلق رکھتے تھے،وہ جنگِ خندق کے زمانے میں تیر سے زخمی ہوگئے تھے،ان کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب خیمہ میں رہیں، اس لئے وہ بنو قریظہ کے محلہ کی طرف مجاہدینِ اسلام کے ساتھ نہیں جاسکے تھے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سپرد کیا اورمقدمۃ الجیش کے طور پر آگے روانہ کیا،مدینہ میں ابن ام مکتوم کو بدستور عامل رہنے دیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب بنو قریظہ کے قلعہ کے قریب پہنچے تو انہوں نے سُنا کہ بنو قریظہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو(نعوذ باللہ) گالیاں دے رہے تھے،غرض شام تک ؛بلکہ نماز عشاء کے وقت تک صحابہ کرام کی آمد کا سلسلہ جاری رہا جن لوگوں کو کسی وجہ سے روانگی میں دیر لگی اور وہ عشاء کے وقت پہنچے،انہوں نے بھی نماز عصر بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچ کر عشاء کے وقت ہی ادا کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس فعل کو جائز رکھا،بنو قریظہ کے قلعہ میں حیی بن اخطب بھی موجود تھا،جب ابو سفیان اورکفارِ عرب جنگِ خندق سے فرار ہوئے تو حیی بن اخطب بنو قریظہ کے قلعہ میں چلاآیا تھا، اُس نے ان کو مسلمانوں سے لڑنے اورمقابلہ کرنے پر خوب آمادہ کیا،مسلمانوں نے بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا تھا،یہ محاصرہ پچیس روز تک قائم رہا،بنو قریظ کا سردار کعب بن اسد تھا،حیی بن اخطب بھی بنو قریظہ کے ساتھ محصور تھا،کعب بن اسد نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ میری قوم سے نہیں ہوسکتا تو اُس نے اپنی قوم کو ایک جگہ جمع کرکے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے میں تو شک نہیں ؛کیونکہ ان کے متعلق ہماری آسمانی کتاب توریت میں پیش گوئیاں صاف صاف موجود ہیں اور یہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظر تھے، پس مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب اُن کی تصدیق کریں اوراپنے جان ومال واولاد کو محفوظ کرلیں، بنو قریظہ نے اس مشورہ کی مخالفت کی اورمسلمان ہونے سے انکار کیا، اس کے بعد کعب بن اسد نے کہا: دوسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ اپنی عورتوں اوربچوں کو قتل کردو اور قلعہ سے نکل کر میدان میں مسلمانوں سے جان توڑ کر مقابلہ کرو،اگر فتح مند ہوئے تو عورتیں اوربچے پھر میسر آسکتے ہیں،مارے گئے تو ننگ وناموس کی طرف سے بے فکر مریں گے،بنو قریظہ نے اس مشورہ کے قبول کرنے سے بھی انکار کیا،کعب بن اسد نے کہا کہ تیسرا مشورہ میرا یہ ہے کہ سبت کی رات میں مسلمانوں پر شبخون مارو کیونکہ اس روز ہمارے یہاں قتل کرنا اورحملہ آور ہونا ناجائز ہے،مسلمان اُس رات کو ہماری طرف سے بالکل بے فکر اور غافل ہوں گے،اس لئے ہمارا شبخون بہت کامیاب رہے گا، اورہم مسلمانوں کا بکُلی استیصال کردیں گے،اس بات پر بھی بنو قریظہ رضامندنہ ہوئے اور کہا کہ ہم سبت کی بے حرمتی بھی نہیں کرنا چاہتے،شرفاء بنو قریظہ میں سے تین شخصوں نے جن کے نام ثعلبہ بن سعید، اسد بن عبید اوراسید بن سعید تھے،اسلام قبول کرلیا، ایک شخص عمرو بن سعد نے کہا کہ میری قوم بنو قریظہ نے بد عہدی کی ہے، میں اس بد عہدی میں اس کا شریک نہیں رہنا چاہتا،یہ کہہ کر وہ قلعہ سے باہر نکل گیا اورلشکرِ اسلام کے ایک سردار محمد بن مسلمہؓ نے جو طلایہ گردی کی خدمت انجام دے رہے تھے،اس کو قلعہ سے نکلتے ہوئے دیکھا، اس کانام ونشان اور ارادہ معلوم کرلینے کے بعد نکل جانے دیا،مگر گرفتار نہیں کیا،آخر ایک کو بنو قریظہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہم اپنے آپ کو اس شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرتے ہیں کہ سعد بن معاذؓ ہمارے لئے جو سزا تجویز کریں وہی سزا ہم کو دی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو قبول فرمالیا،بنو قریظہ نے جب اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کردیا تو قبیلہ بنی اوس کے مسلمان انصار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ جب زمانۂ جاہلیت میں اوس اورخزرج کی لڑائیاں ہوتی تھیں تو بنو قریظہ ہمارے یعنی قبیلۂ اوس کے طرفدار ہوتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ بنو قینقاع کو قبیلۂ خزرج کے انصار کی مرضی کے موافق چھوڑدیا تھا،اب ہماری باری ہے لہذا بنو قریظہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو حکم مقرر فرمائیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے پہلے ہی تمہارے قبیلۂ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ کو حکم تسلیم کرلیا ہے اور بنو قریظہ نے بھی سعد بن معاذ کو اپنی طرف سے وکیلِ مطلق بنادیا ہے،یہ سن کر قبیلہ اوس کے تمام انصار خوش ہوگئے؛چنانچہ اُسی وقت انصار مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوگئے،سعد بن معاذؓ مجروح اورزیرِ علاج تھے،اُن کو پالکی یا اُسی قسم کی کسی سواری میں لے کر لشکرِ اسلام کی طرف لائے،راستے میں لوگ اُن سے کہتے آتے تھے کہ آپ کا فیصلہ ناطقِ ہوگا اب آپ کو موقع حاصل ہے کہ بنو قریظہ کے ساتھ رعایت کریں،سعد بن معاذؓ نے جب اس قسم کی باتیں اپنی قوم کے آدمیوں سے سنیں تو انہوں نے کہا کہ انصاف وعدل کے مطابق فیصلہ کروں گا اور کسی کی ملامت دامنگیر نہ ہونے دوں گا، جب حضرت سعد بن معاذؓ کی سواری قریب پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے حکم دیا کہ اپنے سردار کی تعظیم کو اُٹھو ؛چنانچہ سب نے اُن کو عزت وتعظیم کے ساتھ لیا،اس کے بعد حضرت سعد بن معاذؓ سے کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے قدیمی دوستوں یعنی بنو قریظہ کا معاملہ تمہارے سپرد کردیا ہے،حضرت سعد نے اپنی قوم کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ تم سب خدائے تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر اقرار کرو کہ میرے فیصلے کو بخوشی قبول کروگے اور کوئی چون وچرا نہ کروگے،سب نے اقرار کیا کہ ہم تمہارے فیصلے پر رضا مند ہوں گے،پھر حضرت سعد بن معاذ ؓ نے یہی اقرار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورمہاجرین سے بھی لیا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن معاذؓ کے فیصلے پر رضامند ہونے کا اقرار فرمایا،اس کے بعد حضرت سعد بن معاذؓ نے فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں کے بنو قریظہ کے تمام مرد قتل کردیئے جائیں، اُن کے بیوی بچوں کے ساتھ اسیرانِ جنگ کا ساسلوک کیا جائے اوران کے اموال واملاک کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے، اس فیصلہ کے بعد بنو قریظہ کو قلعہ سے نکلنے کا حکم دیا گیا اوراُن کو زیر حراست مدینہ میں لایا گیا،اُن کے مرد قتل کئے گئے اوراُن کے مکانات مسلمانوں کو رہنے کے لئے دئے گئے۔