انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلاصہ کلام مذکورہ بالا حالات کے پڑھنے سے یہ بات آسانی سے ذہن نشین ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے اورآپ کی بعثت کے وقت ساری کی ساری دنیا تاریک ہوچکی تھی اورربع مسکون پر جہالت کی اندھیری رات اسی طرح چھائی ہوئی تھی کہ کسی حصہ اور کسی ملک میں کوئی ٹمٹماتی ہوئی روشنی مطلق نظر نہیں آتی،دنیا پر اس سے پہلے ایسا وقت نہیں آیا تھا کہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ تہذیب ،تمدن، اخلاق، علم،حکمت،معرفت الہی سب کے سب اس طرح برباد ہوئے ہوں اور تمام رُبع مسکون تیرہ وتار ہوگیا ہو،ہر ملک میں خدائے تعالیٰ کے مرسل اور ہادی رہنما آتے رہے،اوریکے بعد دیگرے روشنی اور تاریکی کے دور دورے رات اور دن کی طر ح نمودار ہوتے رہے لیکن چونکہ اب تمام ملکوں یعنی دنیا کے لیے ایک ہی ہادی برحق مبعوث ہونے والا تھا، لہذا خدائے تعالیٰ نے تمام ہادیوں اورہر ملک کے رہبروں کی لائی ہوئی تعلیمات کے زمانہ کو ایک ہی مقررہ وقت میں ختم کرکے ہر ملک اوردنیا کے ہر حصہ میں نئے ہادی اور نئے ہدایت نامہ کی ضرورت کو پیدا وہویدا کردیا تھا اورساری کی ساری دنیا یک زبان ہوکر زبان حال سے کسی ہادی اورہدایت کی خواہش کا اظہار کررہی تھی؛چنانچہ خدائے تعالیٰ نے اُس کا مل ہادی اورختم الرسل کی بعثت اورپیدائش کے لئے ملک عرب کو انتخاب کیا او ر ربع مسکون کی اس تاریک شب کے ختم کرنے کے لئے مکہ معظمہ سے آفتاب رسالت طلوع ہوا اوراس نے طلوع ہوکر تمام دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں سے منور کردیا ہم کو اپنی کتاب اس طلوعِ آفتاب ہی سے شروع کرنی ہے مگر اصل مدعا کے شروع کرنے سے پیشتر اس سوال کا جواب دینا اورباقی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لئے ملک عرب ہی کیوں پسند کیا گیا؟ اوردوسرے ملک میں نبی آخر الزماں کو کیوں نہ پیدا کیا گیا؟