انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
کاروباری شخص کی امامت درست ہے یا نہیں؟ امام ایسے شخص کو بنانا چاہئے جو علم وفضل، ورع اور تقویٰ میں سب سے بہتر ہو، جائز تجارت اور حلال طریقہ سے کاروبار کرنا اس کے منافی نہیں ہے، خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جنہیں علم وفضل، ورع و تقویٰ میں جو مقام حاصل تھا وہ محتاجِ اظہار نہیں، ان کا بھی بہت بڑا کاروبار تھا، اسی وجہ سے انہیں اغنیائے صحابہؓ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ذریعۂ معاش کاروبار کو بنانا شریعت کی نگاہ میں محمود ہے، خود قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے کہ"جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں چلو پھرو اور اللہ کافضل (روزی) تلاش کرو"۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سچے، امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوں گے، لہٰذا امام کا جائز تجارت اور حلال طریقہ سے کمیشن پر کاروبار کرنا درست ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۳۱۸،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۳/۲۱۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)