انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت صفوانؓ بن معطل نام ونسب صفوان نام، ابو عمر کنیت ،نسب نامہ یہ ہے، صفوان بن معطل بن رخصہ بن خزاعی بن محارب بن مرہ بن فالج بن ذکوان بن ثعلبہ بن بھثہ بن سلیم بن منصور سلمی۔ اسلام ۵ھ میں مشرف باسلام ہوئے۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۱۸) غزوات قبولِ اسلام کے بعد سب سے اول غزوۂ مریسیع میں شریک ہوئے،خندق میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے،سریہ عرینین میں پیش پیش تھے ،غزوات میں عموماً "ساقہ" یعنی فوج کے اس حصہ پر مامور ہوتے تھے،جو فوج کے پیچھے پیچھے چلتا ہے،تاکہ فوج کے بھولے بھٹکے ہوئےآدمیوں اورگری پڑی ہوئی چیزوں کو ساتھ لیتا چلے، غزوۂ بنی مصطلق میں بھی صفوان اس خدمت پر مامور تھے،اس غزوہ میں حضرت عائشہؓ چھوٹ گئی تھیں؛چنانچہ صفوان انہیں ساتھ لیتے آئے، منافقین نے اس کو بہت مکروہ صورت میں مشتہر کیا،لیکن کلامِ پاک نے اس افترا پر دازی کا پردہ چاک کردیا،اس موقع پر آنحضرتﷺ نے صفوان کے متعلق یہ رائے ظاہر فرمائی تھی ما علمت منہ الاخیراً میں ان میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ عزوجل ان الذین جاؤ بالافک عصبت منکم الخ) بعض صحابہ جن میں حسان بن ثابتؓ بھی تھے، منافقوں کے فریب میں آگئے، صفوان نہایت باحمیت تھے اورپھرام المومنین کا معاملہ تھا،اس لیے قدرۃ انہیں تکلیف پہنچی اورجو شِ حمیت میں انہوں نے حسان پر تلوار چلادی، حسان نے آنحضرتﷺ سے اس کی شکایت کی آپ نے اس کے معاوضہ میں حسان کو کھجور کا ایک باغ دلوایا۔ (اسد الغابہ:۳/۲۶) عہدِ خلفاء حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت ۱۷ھ میں آرمیینہ کی فوج کشی میں شریک ہوئے،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی معرکہ میں جام شہادت پیا اوربعض سے معلوم ہوتا ہے امیر معاویہ کے زمانہ تک زندہ تھے اور روم کی معرکہ آرائیوں میں شریک ہوئے،ان ہی میں سے کسی معرکہ میں ران کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ (ایضا،استیعاب:۱/۳۲۹) وفات غرض باختلافِ روایت ۱۷ھ یا ۱۸ ھ میں وفات پائی۔ فضل وکمال صفوان کو مذہبی معلومات کی بڑی تلاش و جستجو رہتی تھی، جن چیزوں سے ناواقف ہوتے تھے، اسے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیتے تھے ایک مرتبہ آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ سے ایسے مسائل پوچھنا چاہتا ہوں جن سے آپ واقف ہیں ،مگر میں ناواقف ہوں فرمایا پوچھو عرض کی شب و روز میں کوئی وقت ایسا بھی ہے جس میں نماز مکروہ ہو، اس استفسار پر آپ نے تینوں مکروہ اوقات مفصل بتائے۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۸۱) گو صفوان سے بہت کم روایتیں ہیں تاہم وہ فضل وکمال کے لحاظ سے صحابہ کی جماعت میں ممتاز شمار کئے جاتے تھے، علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کان خیر فاضلا (استیعاب :۱/۳۲۹)شاعر بھی تھے،مگر عام طور سے شاعری نہیں کرتے تھے جب کوئی خاص موقع آتا تھا تو اشعار موزون ہوجاتے تھے، حسان بن ثابتؓ پروار کرتے وقت دو شعر کہے تھے۔ شجاعت شجاعت وبہادری میں بہت ممتاز تھے اوراس زمانہ کے مشہور بہادروں میں شمار تھا۔