انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت یحییٰ بن ابی زائدہؒ نام ونسب یحییٰ نام،ابو سعید کنیت اوروالد کا نام زکریا تھا،جتنے سلسلہ نسب کا علم ہوا ہے وہ یہ ہے۔ یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ خالد بن میمون بن فیروز الہمدانی،اپنے دادا ابو زائدہ کی نسبت سے شہرت پائی،محمد بن المبشر الہمدانی سے تعلق ولاء رکھتے تھے۔ تعلیم و تربیت شیخ یحییٰ کے والد زکریا بن ابی زائدہ خود بڑے پایہ کے محدث اورفقیہ تھے،اس لیے یحیی کو علمی خانوادہ میں پیدا ہونے کے باعث علم سے قدرتی وفطری مناسبت تھی،پھر ان کے والد کو بھی شروع ہی سے اپنے بیٹے کی تعلیم کا بڑا خیال تھا، عیسیٰ بن یونس بیان کرتے ہیں کہ "میں نے زکریا بن ابی زائدہ کو دیکھا ہےکہ وہ اپنے صغیر السن بچے کو مجاہد سعید کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتےتھے اوران سے کہتے تھے"بیٹے ان حدیثوں کو یاد کرلو" مزید برآں یہ ہوا کہ یحییٰ کوفہ کے رہنے والے تھے جو اس زمانہ میں اسلامی علوم وفنون کا گہوارہ تھا،آپ نے ان قدرتی مواقع سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ چنانچہ آپ نے حدیث کا سماع اپنے والد ماجد زکریا بن ابی زائدہ کے علاوہ ہشام بن عروہ،اسماعیل بن ابی خالد، سلیمان الاعمش،حجاج بن الارطاۃ،ابن غون اورعاصم الاحول جیسے اساطین علم وفن سے حاصل کیا اوراپنے ذوق وشوق اورشیوخ کے فیض التفات سے علم وفضل میں وہ بلند وممتاز مقام حاصل کیا کہ منتخب علماء وقت میں شمار کیے جانے لگے۔ اساتذہ اوپر جن اکابر شیوخ کا ذکر ہوا،ان کے علاوہ یحییٰ نے اوربھی بکثرت ائمہ سے کسب فیض کیا جن میں سے کچھ نام یہ ہیں: یحییٰ بن سعید الانصاری،عکرمہ بن عمار،ابومالک الاشجعی،ابن ابی غنیہ ،عبدالملک بن عبد الحمید،مسعر بن کدام وغیرہ۔ علم وفضل یحییٰ کی جلالتِ علمی پر علمائے امت متفق الرائے ہیں، امام علی بن المدینی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس اپنے زمانہ میں علم کے منتہا تھے،ان کے بعد حضرت شعبیؒ اپنے عہد میں علم کے مرکز قرار پائے،پھر حضرت سفیان ثوری کا عہد آیا تو وہ امام وقت ہوئے،اسی طرح حضرت یحییٰ بن ابی زائدہ اپنے زمانہ میں علم کے منتہا تھے،ایک دوسرے قول میں وہ مزید فرماتے ہیں کہ امام ثوریؒ کے بعد حضرت یحییٰ سے بڑھ کر کوئی شخص معتبر فی الحدیث نہیں تھا، حضرت یحییٰ بن سعید القطان مشہور امام جرح وتعدیل ہیں،لیکن وہ بھی یحییٰ بن ابی زائدہ کی علمی جلالت و وجاہت کے اس درجہ معترف تھے کہ فرمایا کرتے تھے کہ کوفہ میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کی مخالفت میرے لیے یحییٰ بن ابی زائدہ کی مخالفت سے زیادہ صبر آزما اورشدید ہو۔ حدیث ان کا خاص فن حدیث تھا جس میں وہ یکتائے عہد تھے،ابو خالد الاحمر بیان کرتے ہیں کہ "کان یحیی جید الاخذ للحدیث" یحییٰ کو حدیث کے انتخاب میں بڑی بصیرت حاصل تھی،ان میں ایک خاص کمال یہ تھا کہ وہ عموماً کتاب دیکھے بغیر اپنے حافظ سے روایت کرتے تھے،لیکن اس کے باوجود کیا مجال تھی کہ کہیں خطا ہوجائے، یحییٰ بن معین نقد وجرح میں نہایت متشدد تھےلیکن وہ صرف ایک حدیث میں یحییٰ بن ابی زائدہ کی غلطی کا دعویٰ کرسکے۔ فرماتے ہیں: کان یحیی بن زکریا کیساً ولا علمہ اخطأ الا فی حدیث واحد یحییٰ بن ابی زائدہ نہایت فہیم وعقیل تھے ایک حدیث کے علاوہ مجھے ان کی کسی غلطی کا علم نہیں۔ سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ عبداللہ ابن مبارک اوریحییٰ بن ابی زائدہ دو ایسی شخصیتیں ہیں کہ ہم نے ان کا مثل نہیں دیکھا۔ مدارِ اسناد یحییٰ اپنے زمانہ میں اسناد کے سب سے بڑے مدار تھے،علی بن المدینی بیان کرتے ہیں کہ اسناد کا دارومدار پہلے زمانہ میں چھ بزرگوں پر تھا،آپ نے ان کے اسمائے گرامی بھی شمار کرائے،پھر ان چھ ارباب علم وفضل کا علم ایسے مختلف اصحاب کی طرف منتقل ہوگیا جنہوں نے علم کی مختلف شاخوں میں کمال پیدا کیا، (علی بن المدینی نے اس موقع پر بھی ان بزرگوں کا نام لیا)پھر ان سب کا علم دو بزرگوں پر آکر ختم ہوگیا،ایک ابو سعید یحییٰ بن سعید جو بنو تمیم کے غلام تھے اورجنہوں نے صفر ۱۹۸ھ میں وفات پائی اوردوسرے بزرگ یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ ہیں،کیا عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح یہ دونوں بزرگ نام اورکنیت میں یکساں ہیں علم کی جامعیت ومرکزیت میں بھی ایک ہیں۔ ثقاہت ثقاہت اورتثبت کے لحاظ سے بھی ان کا پایہ بہت بلند تھا،تمام ائمہ حدیث ان کی ثقاہت پر متفق ہیں،حضرت یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کہ آپ کو ابن سہر زیادہ محبوب ہیں،یا یحییٰ بن ابی زائدہ ،بولے دونوں ثقہ اورقابلِ قبول ہیں،امام نسائی اورعجلی بھی انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں،ابن نمیر اتقان کے لحاظ سے ان کو امام شافعیؒ سے بھی فائق مانتے ہیں،ابو حاتم فرماتے ہیں وہ مستقیم الحدیث ثقہ اورصدوق ہیں،حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یحییٰ بن ابی زائدہ کا شمار کوفہ کے حفاظِ حدیث میں ہوتا ہے، وہ متقن ثبت ہیں،ابو حاتم فرماتے ہیں وہ مستقیم الحدیث ثقہ اورصدوق ہیں حافظ ابن حجر لکھتےہیں کہ یحییٰ بن ابی زائدہ کا شمار کوفہ کے حفاظِ حدیث میں ہوتا ہے،وہ متقن ثبت اورصاحب سنت تھے۔ فقہ حدیث کی طرح ان کو فقہ میں بھی کمال حاصل تھا؛چنانچہ ان کا شمار کوفہ کے فقہاء ومحدثین میں ہوتا تھا، ایک مرتبہ حضرت عجلیؒ کے سامنے یحییٰ بن ابی زائدہ کا ذکر آگیا ،تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بھی ثقہ ہیں اوران کے والد زکریا بن ابی زائدہ بھی ثقہ تھے، اوردونوں ان اکابر امت میں سے ہیں جو حدیث اورفقہ دونوں کے جامع تھے حسن بن ثابت ایک مرتبہ یحییٰ سے ملاقات کرنے کے بعد لوٹے تو انہوں نے بیان کیا کہ میں کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ (یحییٰ بن ابی زائدہ) کے پاس مہمان تھا۔ افتاء فقہی کمال کے ساتھ وہ صاحبِ افتاء بھی تھے،ابن عماد حنبلی انہیں امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔ عہدۂ قضا اوروفات کمال تفقہ اورتثبت فی العلم کی وجہ سے ان کو وفات سے چار ماہ پیشتر مدائن کی قضا کا عہدہ پیش کیا گیا جس کو انہوں نے منظور کرلیا،یہ زمانہ ہارون کی حکومت کا تھا،لیکن عمر نے وفا نہیں کی، اوراسی عہدۂ قضا پر مامور ہونے کی حالت میں بماہِ جمادی الاولیٰ ۱۸۳ھ میں مدائن میں وفات پائی،صاحبِ شذرات نے ۱۸۲ھ کے وفیات میں ذکر کیا ہے اس وقت عمر ۶۳ سال کی تھی۔ تصنیفات یحییٰ بن ابی زائدہ کو دیگر محدثین میں ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی حاصل تھی کہ وہ کوفہ کے سب سے پہلے امام ہیں جنہوں نے حدیث میں تصنیف کی،علامہ بغدادی ،علامہ سمعانی اورحافظ ابن حجر تینوں لکھتے ہیں کہ: وھو اول من صنف الکتب بالکوفۃ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں کے کوفہ میں کتابیں تصنیف کیں۔ ان کا انداز تصنیف اتنا مقبول ہوا کہ ان کے بعد بعض اورائمہ نے بھی تصنیف کی طرف توجہ کی تو انہیں کے نقشِ قدم کو دلیلِ راہ بنانا پڑا؛چنانچہ منقول ہے کہ امام وکیع نے اپنی کتابوں میں یحییٰ بن ابی زائدہ کی یہی کتابوں کی پیروی کی۔ ان کی تصنیفات کی تعداد اوردیگر تفصیلات کے بارے میں اہلِ تذکرہ خاموش ہیں بن ندیم نے صرف ایک کتاب کتاب السنن کی تصریح کی ہے،اغلب ہے کہ جس طرح اوربہت سے ائمہ کی تصنیفات گوشہ خمول میں گم ہیں ان کی بھی نادر الوجود ہیں۔