انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابن ابی ادفیٰ ؓ نام ونسب علقمہ اور عبداللہ نام، ابو معاویہ کنیت ،ابن ابی اوفی کے نام سے مشہور ہیں،نسب نامہ یہ ہے علقمہ بن خالد بن حارث بن ابی اسید بن رفاعہ بن ثعلبہ بن ہوازن بن اسلم بن اقصیٰ۔ اسلام وغزوات صلح حدیبیہ کے قبل مشرف باسلام ہوئے،حدیبیہ میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے بیعتِ رضوان میں شرفِ جان نثاری حاصل کیا (مسند احمد بن حنبل:۴/۳۵۴)حدیبیہ کے بعد غزوہ خیبر ہوا، سب سے پہلے اس میں میدان جنگ میں اترے (ابن سعد:۴/۳۶) پھر حنین میں داد شجاعت دی ہاتھوں میں کاری زخم لگا جس کا نشان مدتوں باقی رہا (بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالی ویوم حنین الخ) فتح مکہ کے بعد حنین میں شریک ہوئے،(بخاری کتاب الصوم باب متی یحل فطر الصائم) اوراسلام کی مدافعت میں سات لڑائیوں میں ان کی تلوار بے نیام ہوئی (مسند ابن حنبل:۴/۳۵۳) اوراس ایثار و قربانی کے ساتھ کہ بعض لڑائیوں میں سدرِ مق کے لیے صرف ٹڈی کھاکر بسر کرنا پڑا۔ (ایضاً،ومسند دارمی، کتاب الصید،باب اکل البحراہ مستدرک حاکم:۳/۷۵۷) کوفہ میں قیام عہدِ نبویﷺ سے حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ تک مدینۃ الرسول میں رہے، جب کوفہ آباد ہوا تو یہاں منتقل ہوگئے اوراپنے قبیلہ اسلم کے محلہ میں گھر بنالیا۔ خارجیوں کی سرکوبی خلافتِ صدیقی سے لیکر خلافت مرتضوی تک کہیں ان کا پتہ نہیں چلتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں گوشہ گیر رہے، حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں جب خارجیوں نے سر اٹھایاتو آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق ان کے مقابلہ کو نکلے، (مسند احمد بن حنبل:۴/۳۸۲) اوراپنے ساتھ اورمسلمانوں کو بھی ان کے استیصال پر آمادہ کیا اوران کو لکھ بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنگ کے موقع پر فرمایا تھا کہ لوگو! دشمن سے مقابلہ کی آرزو نہ کیا کرو اورخدا سے امن وعافیت کی دعا کیا کرو، لیکن جب مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اوریقین رکھو کہ تلواروں کے سایہ کے نیچے جنت ہے۔ فضل وکمال حضرت ابن ابی اوفیٰؓ نے کافی عمر پائی ،بنی امیہ کے دور تک زندہ رہے، اخیر عمرمیں آنکھوں سے معذور ہوگئے تھے، اسی حالت میں ۸۶ اور۸۷ کے درمیان وفات پائی، یہ اصحاب نبوی میں آخری بزرگ تھے،جنہوں نے کوفہ میں انتقال کیا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۵۷،۵۷۱) فضل وکمال چونکہ اسلام کے بعد قیام مدینہ ہی میں رہا، اور بیشتر غزوات میں آنحضرتﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کرتے رہے، اس لئے اکثر احادیث نبویﷺ سننے کا اتفاق ہوتا تھا؛چنانچہ ۱ن کی ۹۵ مرویات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں سے دس متفق علیہ ہیں اور ۵ میں امام بخاری اورایک میں امام مسلم منفرد ہیں ،رواۃ میں عمروبن مرہ، طلحہ بن مطرف ،عدی بن ثابت اور اعمش وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ (تہذیب الکمال:۱۱) ان کا علمی پایہ ان کے معاصرین میں مسلم تھا، مختلف فیہ مسائل میں لوگ تحقیق کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھےایک مرتبہ عبداللہ بن ابی شداد اورابو بردہ میں بیع سلم کے بارے میں اختلاف ہوا تو دونوں نے فیصلہ کے لیے ان کے پاس آدمی بھیجا، انہوں نے تفصیلی جواب سے ان کی تشفی کردی، (مسند احمد بن حنبل:۴/۳۵۴) ایک مرتبہ بعض لوگوں کو خیبر کی پیداوار کا مصرف معلوم کرنے کی ضرورت ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں وہ کن مصارف میں صرف ہوتی تھی، تو ان کی طرف رجوع کیا انہوں نے بتایا کہ اس کی کوئی خاص تقسیم نہ تھی؛بلکہ ہر شخص بقدر ضرورت اس میں سے لے لیتا تھا۔ دعائے نبوی :ایک مرتبہ ان کے والد کچھ صدقہ لیکر خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوئے ،آپ نے دعا فرمائی کہ خدایا آل ابی اوفی پر رحمت فرمائیے۔ پاس فرمان رسول ابن ابی ؓ اوفی کسی موقع پر بھی فرمانِ رسول سے سرموتجاوز نہ کرتے تھے، ان کی ایک لڑکی کا انتقال ہوگیا ،عورتوں نے رونا پیٹنا شروع کیا، ابن ابیؓ اوفی نے کہا بین نہ کرو، رسول اللہ ﷺ نے بین سے منع فرمایا ہے،البتہ آنسو بہاسکتی ہو، اس کے بعد مسنون طریقہ سے نماز جنازہ پڑھا کر فرمایا ،جنازہ میں رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔