انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث مرسل اور فقہ اسلامی محدثین کی اصطلاح میں مرسل حدیث اسے کہتے ہیں جس میں صحابیؓ کا نام چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ کوئی تابعی کہے، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؛ لیکن اصولیین کی اصطلاح میں مرسل حدیث اسے کہتے ہیں "جس میں کوئی ثقہ عادل راوی خواہ وہ تابعی ہو یاغیرتابعی وہ کہے "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"۔ (تدریب الراوی:۱/۱۹۵) اصولیین کی تصریح کے مطابق حدیث مرسل کی دوقسمیں ہیں: (۱)مراسیلِ صحابہؓ۔ (۲)مراسیلِ غیرصحابہؓ۔ مراسیلِ صحابہ رضی اللہ عنہم یعنی صحابیؓ کا اپنے ساتھی صحابیؓ سے روایت نقل کرنا اور بغیراُن کے نام کی صراحت کیے کہنا قال رسول اللہﷺ۔ مراسیلِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا حکم مراسیل صحابہؓ جمہور ائمہ کے نزدیک مقبول ہیں، علامہ نوویؒ لکھتے ہیں کہ جمہور علماء مراسیلِ صحابہؓ کے قبول کرنے پر متفق ہیں؛ کیونکہ صحابہ کرامؓ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے عادل قرار دیا ہے اور ان کی اقتداء کی ترغیب دی ہے۔ (نووی مع مسلم:۱/۳۰) آپﷺ کا ارشاد ہے: "اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ"۔ (مشکوٰۃ شریف:۵۵۴) ترجمہ:میرے صحابہؓ ستاروں کے مانند ہیں، تم ان میں سے جن کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے۔ علامہ ابوحسینؒ نے یہ تصریح کی ہے کہ امام شافعیؒ مراسیلِ صحابہ کو خاص طور پر لائق استدلال شمار کرتے تھے۔ (المعتمد:۱/۲۳۸) ابن قدامۃؓ کہتے ہیں کہ مراسیلِ صحابہؓ جمہور علماء کے نزدیک مقبول ہیں؛ کیونکہ صحابہؓ صحابی ہی سے روایت کرتے تھے اور تمام صحابہؓ معلوم العدالۃ ہیں اور اگر وہ غیرصحابیؓ سے روایت کرتے تھے توجب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہوجاتا تھا کہ یہ شخص بھی عادل اور ثقہ ہے اس وقت تک ان سے روایت نہیں لیتے تھے اور ان کی شانِ صحابیت سے یہ بات بعید بھی تھی کہ وہ ایسے اشخاص سے روایت لیں جوغیرثقہ اور دینی امور میں غیرذمہ دار ہوں۔ (روضۃ الناظر مع شرحھا:۱/۳۲۴) ابنِ صلاح رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ صحابہ مثلاً ابن عباسؓ اور ان جیسے حضرات کی حدیث، حدیثِ متصل کے حکم میں ہے؛ کیونکہ وہ صحابہؓ سے روایت نقل کرتے ہیں اور تمام صحابہ عادل ہیں۔ (مقدمہ ابن صلاح،النوع العاشر معرفۃ المنقطع:۱/۹) امام اعظمؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بھی مراسیلِ صحابہؓ مقبول ہیں۔ (فتح القدیر:۲۲/۲۲۳) مراسیلِ غیرصحابہ صحابیؓ کے علاوہ کسی اور کی جانب سے ارسال ہو تواس کے معتبر ہونے یانہ ہونے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے، ذیل میں اختصار کے ساتھ اسے ذکر کیا جاتا ہے: الف:مرسل غیرصحابی مطلقاً مقبول ہے، علامہ آمدیؒ کا یہی خیال ہے۔ ب:غیرصحابی اگرثقہ ہوں توان کے ارسال کو قبول کیا جائے گا؛ ورنہ نہیں، یہ ابن حاجبؒ کا موقف ہے۔ ج:مرسل غیرصحابی اگر "قرون مشھود لہابالخیر" میں ہوتو قبول کیا جائے گا اور اگراس کے بعد کے دور میں ہوا ہوتو قبول نہیں کیا جائے گا، یہ رائے عیسیٰ بن ابان کی ہے۔ د:مرسل غیرصحابی کا بالکل اعتبار نہیں ہے؛ لیکن جمہور علماء کا راجح قول یہ ہے کہ مرسل غیرصحابی سے استدلال کرنے میں توقف کریں گے؛ حتی کہ یہ معلوم ہوجائے کہ ثقہ کا ارسال ہوا ہے یاغیرثقہ کا؟ ثقہ کا ارسال ہوتو قبول کریں گے؛ ورنہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ (تدریب الراوی:۱/۱۹۸) حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ جب راوی ثقہ اور غیرثقہ دونوں کا ارسال کردیا کرتا ہوتو ایسے مرسل غیرصحابی کو بالاتفاق قبول نہیں کیا جائے گا۔ (نخبۃ الفکر:۶۸) ائمۂ اربعہ کا مسلک امام نوویؒ نے یہ لکھا ہے کہ جمہور محدثین اور امام شافعیؒ کے نزدیک مرسل غیرصحابی حدیث ضعیف کے حکم میں ہے۔ (تدریب الراوی:۱/۱۹۸) امام شافعیؒ کے نزدیک مرسل غیرصحابی کو پانچ امور میں سے کسی ایک کی بنا پر قبول کریں گے: (۱)اس مرسل کوکوئی دوسرا راوی مسند بیان کرے (۲)دوسرا راوی اس کومرسل ہی روایت کرے مگردوسرے شیخ سے (۳)یااس مرسل روایت کی تائید میں کسی صحابیؓ کا قول ہو (۴)یااکثرعلماء کا قول ہو (۵)یاوہ ارسال کرتا ہو صرف عادل راوی سے، ان وجوہ میں سے کوئی وجہ جب پائی جائے گی تب توقبول کریں گے؛ ورنہ قبول نہیں کریں گے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اس طرح کے مرسل غیرصحابی کا درجہ مسند جیسا ہے؛ البتہ اگرمسندومرسل کے درمیان تعارض ہوجائے تومسند کومقدم کریں گے۔ (الرسالہ:۴۶۵) مرسل غیرصحابی غیرمعتبر کیوں؟ یہ بات توطے ہے کہ صحابہؓ عادل ہیں اور دینی معاملہ میں جس قدر انہیں احتیاط تھا وہ بعد کے ادوار میں نہ رہا؛ اسی لیے بعد والوں میں دینی لحاظ سے مختلف خرابیاں پائی جانے لگیں اور ان خرابیوں کے لحاظ سے محدثین کوحدیث کی صحت وضعف کے متعلق زمرہ بندی کی ضرورت پیش آئی، بسااوقات متصل السند حدیث میں بھی غیرثقہ راوی آجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حدیث درجہ صحت سے نکل جاتی ہے اور ضعیف احادیث کے زمرہ میں داخل ہوجاتی ہے، جب سند میں مذکور راویوں کی وجہ سے بھی ساری احادیث قبول واعتبار کا درجہ حاصل نہیں کرپاتی توجس سند میں راوی حذف کردیا گیا ہو وہ حدیث کیسے لائق احتجاج بن سکتی ہے؛ لہٰذا مرسل غیرصحابی معتبر اور لائقِ استدلال نہیں ہے۔ (التدریب:۱/۱۹۸) احناف ، مالکیہ اور حنابلہ کا مسلک امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ کا مشہور قول یہ ہے کہ مرسل غیرصحابی بھی اگر وہ ثقہ ہو توقابلِ قبول ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ثقہ راوی کا کسی راوی کے ذکر کرنے سے خاموشی اختیار کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس راوی کو ثقہ جانتا ہے؛ گویا اس کا سکوت کرنا اس کی عدالت کی خبر دینا ہے؛ اسی لیے علامہ آمدیؒ کہتے ہیں کہ جب عادل ثقہ کہے:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا، تو اس کے اس جملہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسے جب تک اس قول کے حضورﷺ کی طرف سے ہونے کا یقین نہ ہوا ہوتا توایسے جزم ویقین کے ساتھ وہ نقل نہ کرتے۔ (الاحکام:۲/۱۲۵) لیکن اگرراوی ثقہ اور غیرثقہ دونوں کا ارسال کردیا کرتا ہے تواحناف میں سے ابوبکر رازی اور مالکیہ میں سے ابوالولید باجی اس کے غیرمعتبر ہونے کے قائل ہیں۔ (قفوالاثر:۱۵) شیخ ابوزہرہؓ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ نے جومرسل غیرصحابی کو قبول کیا ہے اس کی وجہ روایت میں تساہل برتنا نہیں ہے؛ کیونکہ انہوں نے ہرشحص کے ارسال کو جائز قرار نہیں دیا ہے؛ بلکہ وہ صرف ایسے ثقات کے ارسال کو قبول فرماتے ہیں ،جن کے بارے میں اُن کو صدق سے متصف ہونے کا علم ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کبھی ان کے قبول کرنے کا سبب اس کی شہرت ہوتی ہے، ارسال تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں زیادہ تھا؛ کیونکہ وہ زمانہ خیرالقرون کا تھا اور مجموعی طور پر آپ کا ارشاد ہے "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ" (مشکوٰۃ شریف:۳۲) سامنے رہا کرتا تھا، اس لیے حضورﷺ کی طرف غلط بات کے منسوب کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی؛ لیکن جب دین کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی اور آپﷺ کی طرف غلط باتوں کو منسوب کیا جانے لگا توعلماء اس کے سند کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ راوی کو پہچانا جاسکے اور اس کی حالت کے مطابق حدیث کی صحت وسقم کا اندازہ کیا جائے؛ اسی لیے ابن سیرینؓ فرماتے ہیں کہ ہم حدیث کی سند فتنہ کی وجہ سے بیان کرنے لگے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۳۰۴) اسی لیے امام شعبیؒ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں ان کے مراسیل کے بارے میں علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ مراسیلِ شعبی صحیح ہیں؛ کیونکہ وہ صرف ثقہ راوی ہی کا ارسال کرتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۹) اور ابن عدی یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں کہ مراسیلِ ابراہیم نخعیؒ صحیح ہیں۔ (نصب الرایہ:۱۔۵۱،۵۲) اسی طرح حضرت سعید بن مسیب کے مراسیل کو بھی محدثین نے حجت گردانا ہے۔ (نصب الرایہ:۲/۴۲۳) قاضی شریح کے مراسیل بھی صحیح ہیں؛ کیونکہ وہ بھی ثقہ ہیں اور کبارِ تابعین میں سے ہیں، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے زمانے میں عہدۂ قضا پر فائز تھے۔ (سیرالصحابہؓ:۳/۳۰۲) حضرت حسن بصریؒ کے مراسیل کے بارے میں ابن مدینیؒ کہتے ہیں کہ وہ ثقات سے روایت کرتے ہیں اور ابوزرعۃ کا کہنا ہے کہ حسن بصری جس حدیث کو قال رسول اللہ ﷺ کہہ کر روایت کرتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی اصل مجھے ضرور ملی ہے۔ (المقاصد الحسنۃ:۱۸۳) مراسیلِ محمدبن سیرین بھی صحیح ہیں۔ (الجوہرالنقی، کتاب الحج:۵/۱۰۹) مراسیلِ صحابہ کرام کی مثال حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں:"إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ" (مشکوٰۃ شریف:۲۴۵) جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ روایت آپ نے براہِ راست حضور سے سنی ہے؟ توفرمایا نہیں، میں نے یہ اسامۃ بن زید سے سنی ہے؟ اسی طرح حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے "مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فَلَاصَوْمَ لَهُ" (اتحاف السادہ المتقین:۴/۳۲۰) جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ روایت آپ نے حضورﷺسے براہِ راست سنی ہے؟ تو فرمایا نہیں، میں اس کوفضل بن عباسؓ سے نقل کرتا ہوں۔ مراسیل تابعی وتبع تابعین حضرت عطاؒ، حضرت قتادہؒ، حضرت ابنِ شہاب زہریؒ، حضرت ابی اسحاق الہمدانیؒ، حضرت اسماعیل بن ابی خالدؒ اور حضرت سعید بن جنیدؒ کے مراسیل بھی حجت ہیں؛ کیونکہ یہ حضرات بھی ثقہ راوی کا ہی ارسال کرتے ہیں۔ حدیثِ مرسل کا ایک اور مفہوم محدثین کے نزدیک مرسل کا ایک عام مفہوم بھی ہے کہ کبھی مرسل سے مطلق انقطاع مراد لیتے ہیں؛ خواہ وہ بصورت معلق ہویامعضل یامنقطع اور صحاحِ ستہ میں لفظِ مرسل اسی معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے، اس عام مفہوم کے اعتبار سے مرسل کی دوقسمیں ہیں (۱)مرسل ظاہر (۲)مرسل خفی۔ مرسلِ ظاہر: وہ روایت ہے جس کا انقطاع واضح ہو اس طور پرکہ راوی ایسے شیخ سے روایت کرتا ہو جوان کا ہمعصر نہ ہو۔ مرسلِ خفی: ایسے راوی کا شیخ کی طرف روایت منسوب کرنا جس سے اس راوی کی ملاقات توہو؛ لیکن مطلق سماع نہ ہو یاسماع توہو؛ لیکن اس حدیث کا سماع ثابت نہ ہو، وہ تابعین جنہوں نے حضورﷺ کا زمانہ پایا؛ لیکن کسی وجہ سے ملاقات نہ کرسکے، مثلاً ابوعثمان نہدیؓ، حضرت قیس بن حازم وغیرہ تویہ حضرات اگر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تو اس روایت کو بھی مرسل خفی کہیں گے۔