انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مرکزی حکومت کی تبدیلی کا اندلس پر اثر امیر یوسف بن عبدالرحمن فہری اگرچہ خود کسی فریق میں شامل نہ تھا ؛لیکن اندلس کے اندر جب بنو امیہ کی خلافت کے ختم ہونے اور عباسیوں کی خلافت کے قائم ہونے کی خبر پہنچی تو جابجا شامیوں اور ان امیروں کے خلاف ہواخواہانِ بنو عباس مستعد ہوگئے جو بنو امیہ کے خیر خواہ تھے ضمیل بن حاتم کو بنو امیہ کا خیر خواہ سمجھ کر چاروں طرف سے گھیر لیا آخر قبیلہ قیس کے لوگوں نے ابن حاتم کی مدد کی ضمیل بن حاتم نے جب امیر یوسف بن عبدالرحمن سے امداد طلب کی تو اس نے امداد سینے سے انکار کردیا بہر حال ابن حاتم نے اپنےآپ کو دشمنوں کے پنجے سے بچالیا،اسی طرح ملک میں جابجا ہنگامہ آرائیاں شروع ہوگئیں،ملک اندلس میں جولوگ بنو امیہ کے ہوا خواہ تھے ان میں دوشخص ابوعثمان عبیداللہ بن عثمان عبداللہ بن خالد خاص طور پر قابل ذکر ہیں ،یہ دونوں آپس میں رشتہ دار بھی تھے یعنی ابوعثمان خسر اور عبداللہ بن خالد اس کا داماد تھا ،یہ دونوں صوبہ اندلوسیہ کے شہر البیرہ میں حکران تھے ،اس شہر میں اہل شام کی زیادہ آبادی تھی،ان کے علاوہ یوسف بن بخت اور حسین بن مالک کلبی بھی مشہور سردار تھے ،ضمیل بن حاتم کو جب امیر یوسف بن عبدالرحمن نے مدد نہ دی تو ابوعثمان اور عبداللہ خالداس کی مدد کے لیے گئے ان دونوں کی روانگی سے پہلے عبدالرحمن الداخل (جس کا حال آگے آئےگا)کا غلام بدر ان کے پاس پہنچ چکا تھا ،انہوں نے ضمیل بن حاتم کو عبدالرحمن الداخل کے اندلس بلانے کے خیال میں شریک کرلیا ،ضمیل نے یوسف بن عبدالرحمن سے بظاہر بگاڑ کرنا مناسب نہ سمجھ کر یوسف کی رفاقت اور ہمددی کے اظہار میں کوتاہی نہیں کی ،ضمیل سے رخصت ہوکر ابوعثمان اور عدباللہ خالد دونوں البیرہ میں واپس آئے اور بتدریج اپنے دوستوں اور ہوا خواہوں میں اس خیال وارادے کی اشاعت خفیہ طور پر شروع کردی بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ ضمیل بن حاتم اپنے وعدے اور ارادے پر قائم نہیں ہے ؛بلکہ وہ یوسف بن عبدالرحمن ہی کی حکومتکو پسند کرتا ہے اس طرح قبیلہ قیس اور قبیلہ فہر کے آدمیوں سے امید حمایت منقطع ہوگئی مگر ابوعثمان نے یہ ہوشیاری کی کہ ان دونوں قبیلوں کے خلاف قبائل میں مخالفت کاجوش بلند کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ یمنی سرداروں نے جابجا علم بغاوت بلند کیے اور امیر یوسف بن عبدالرحمن اور ضمیل بن حاتم دونوں ان کی سرکوبی اور مدافعت میں مصروف ہوگئے۔