انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خوارج خراسان کے مجمل حالات اوپر مذکور ہوچکے ہیں؛ اسی سلسلہ میں یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ خارجیوں نے سلطنتِ اسلامیہ میں خانہ جنگیوں کی کثرت اور ضعف کے آثار دیکھ کرخروج کیا اور خراسان کے خارجیوں نے مل کرضحاک بن قیس شیبانی کواپنا سردار بنایا، ضحاک نے کوفہ پرحملہ کرکے قبضہ کرلیا اور عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز کوکوفہ سے واسط آنا پڑا، سلیمان بن ہشام مروان بن محمد سے ہزیمت پاکرضحاک بن قیس سے آملا، اس طرح ضحاک کی طاقت اور بڑھ گئی، ضحاک نے طاقت پاکر موصل پرچڑھائی کی، وہاں مروان بن محمد کے بیٹے عبداللہ بن مروان نے مقابلہ کیا؛ لیکن اس کے پاس کل سات ہزار فوج تھی اور ضحاک کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھے، ضحاک نے عبداللہ بن مروان کا محاصرہ کرلیا۔ مروان بن محمدیہ خبر سن کراس طرف متوجہ ہوا خوب زورشور کا مقابلہ ہوا، ضحاک مارا گیا، خارجیوں نے سعید بن بہدل کواپنا امیربنایا وہ بھی مارا گیا، اس کے بعد شیبان بن عبدالعزیز کوخارجیوں نے اپنا امیرمنتخب کیا، مروان نے یزید بن ہبیرہ کوکوفہ کی طرف روانہ کیا اس نے وہاں سے خاجریوں کوخارج کیا، ادھرشیبان بن عبدالعزیز خارجیوں کی تمام جمعیت کولے کرفارس کی طرف چلا گیا، وہاں جاکر وہ ابومسلم کا شریک ہوا، جیسا کہ اوپر مذکور ہوچکا ہے اور سنہ۱۳۰ھ میں مقتول ہوا۔ حجاز ویمن وحضرِموت میں بھی بغاوتیں نمودار ہوئیں ابوحمزہ مختار بن عوف امدی نے علم بغاوت بلند کیا، حضرِموت کارئیس عبداللہ بن یحییٰ بھی اس کا شریک ہوگیا، ابوحمزہ نے اوّل مدینہ پرقبضہ کیا، اس کے بعد شام کی طرف بڑھا، مروان بن محمد نے ابن عطیہ سعدی کواس کے مقابلہ پرمامور کیا، وادی قریٰ میں لڑائی ہوئی، ابوحمزہ مارا گیا، ابن عطیہ یمن کی طرف بڑھ گیا، وہاں عبداللہ بن یحییٰ کومقابلہ پرمستعد پایا، دونوں میں لڑائی ہوئی، عبداللہ بن یحییٰ مارا گیا، ابن عطیہ نے اس کا سرکاٹ کرمروان کے پاس بھیجا، جس وقت مروان بن محمدضحاک خارجی سے موصل کے قریب برسرمقابلہ تھا اس وقت اس کے پاس ایک خط میں امام ابراہیم نے ابومسلم کوہدایات لکھی تھیں اور یہ بھی لکھا تھا کہ خراسان میں کسی عربی النسل یاعربی انسان کوزندہ نہ چھوڑنا، خراسان کے اصلی باشندے جومسلمان ہوگئے ہیں وہ ہمارے بہت کام آئیں گے اور انھیں پرزیادہ اعتماد رکھنا چاہیے؛ اسی خط سے یہ راز بھی منکشف ہوتا تھا کہ بنوعباس نے بنواُمیہ کے خلاف عرصہ سے سازش کا جال پھیلا رکھا ہے اور امام ابراہیم اس سازش کے موجودہ امام ہیں، جومقامِ حمیمہ علاقہ بلقاء میں سکونت پذیر ہیں، مروان بن محمد نے اس خط کوپڑھ کراپنے عامل کوجوبلقاء میں مامور تھا لکھا کہ ابراہیم بن محمد کوحمیمہ سے گرفتار کرکے بھیج دو؛ چنانچہ ابراہیم بن محمد اور ان کے ساتھ کئی اور اہلِ خاندان قید ہوکر مروان کے پاس بھیجے گئے، مروان بن محمد نے ان کومقامِ حران میں قید کردیا، امام ابراہیم کے ساتھ سعید بن ہشام بن عبدالملک اور اس کے دونوں لڑکے عثمان ومروان اور عباس بن ولید بن عبدالملک اور عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز اور محمد سیانی بھی قید کردیئے گئے، چند روز کے بعد حران میں وبائی بیماری پھیلی اسی حالت میں بحالتِ قید امام ابراہیم عباس بن ولید، عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز فوت ہوگئے۔ سعید بن ہشام معہ اور قیدیوں کے داروغہ جیل کوقتل کرکے اور جیل خانہ توڑ کربھاگ نکلا، اہلِ حران نے ان مفرور قیدیوں کوپکڑکرمارڈالا، صرف ابومحمد سفیانی قید خانہ سے نہ نکلا، اس کومروان بن محمد نے لغاب سے شکست خوردہ واپس آکر آزاد کیا، امام ابراہیم نے اپنی گرفتاری وقید کے وقت وصیت کردی تھی کہ میرے بعد میرا جانشین میرا بھائی عبداللہ بن محمد المشہور بہ ابوالعباس سفاح ہوگا، ساتھ ہی یہ بھی وصیت کردی تھی کہ اب ابوالعباس سفاح کوعلاقہ بلقا میں سکونت نہیں رکھنی چاہیے؛ بلکہ کوفہ میں جاکر رہنا چاہیے؛ چنانچہ عبداللہ بن محمد سفاح معہ اہلِ خاندان اسی وصیت کے موافق کوفہ میں آکراقامت پذیر ہوا تھا، امام ابراہیم نے اپنی گرفتاری سے پیشتر حکم دیا تھا کہ ابومسلم خراسانی کو اپنا افسر سمجھ کراس کے احکام کی تعمیل کرو، اس کے بعد وہ قحطبہ بن شبیب کوایک سیاہ پھریرہ دے کرابومسلم کے پاس روانہ کرچکے تھے کہ اس جھنڈے کوبلند کرکے خراسان میں خروج اور ملکوں پرقبضہ شروع کردو۔ ابومسلم نے سنہ۱۳۰ھ سے سنہ۱۳۱ھ تک تمام خراسان پرقبضہ کرلیا، اس کے بعد قحطبہ بن شبیب کوفوج دے کرکوفہ کی طرف بھیجا، کوفہ پرقبضہ کرنے کے بعد ابوالعباس سفاح کی عبداللہ بن محمد کے ہاتھ پربیعتِ خلافت ہوئی، یہ خبرسن کرمروان بن محمد حران سے کوفہ کی طرف ایک لاکھ بیس ہزار فوج لے کر چلا، راستے میں نہرزاب کے کنارے سفاح کی فوج سے جس کا سردار سفاح کا چچا عبداللہ بن علی تھا مقابلہ ہوا، مروان بن محمد کی فوج اگرلڑنا چاہتی توبڑی آسانی سے عبداللہ بن علی کے لشکر کوشکست دے سکتی تھی؛ لیکن اس معرکہ جنگ میں جب کہ مروان بن محمد عبداللہ بن علی کی فوج کے اکثر حصے کوشکست دے کربھگاچکا تھا اور فتح میں کوئی کسرباقی نہ رہ گئی تھی، مروان کی فوج کے اکثرحصے نے لڑنے اور حملہ کرنے سے انکار کردیا؛ گویا وہ مروان بن محمد کی شکست ہی دلانا چاہتے تھے۔ عبداللہ بن علی نے اپنے آپ کوشکست خوردہ دیکھ کراور اپنی جان پرکھیل کراپنے مخصوص ہمراہیوں کے ساتھ حملہ کیا؛ مگرمروان کی طرف سے اس کی مدافعت میں کوئی سردار نہ بڑھا مروان نے ان کواعنام واکرام کا لالچ دیا، جب یوں بھی کام نہ چلا توجس قدر خزانہ اس کے ہمراہ تھا وہ سب مروان نے میدان میں ڈلوادیا او رکہا کہ حملہ کرو اور کمزور دشمن کومارکر یہ تمام خزانہ آپس میں تقسیم کرلو، یہ دیکھ کرلشکر اس خزانے کے لوٹنے میں مصروف ہوگیا اور جولوگ ابھی تک لڑرہے تھے وہ بھی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہوگئے اس بدنظمی وافراتفری کودیکھ کرمروان نے اپنے بیٹے عبداللہ کوبھیجا کہ لوگوں کواس حرکت سے روکے، اس کے پہنچتے ہی سب کے سب میدان سے بھاگنے لگے اور مروان کوچند ہمراہیوں کے ساتھ تنہا چھوڑ کرچل دیے، مروان اپنے لشکر کی اس بے وفائی سے مجبور ہوکر میدان سے بھاگا اور موصل پہنچا، وہاں مروان پرلوگوں نے اس شکست کی وجہ سے آوازیں کسیں، وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھ کرمقام حران کی طرف آیا، جہاں اس کا بھتیجا ابان بن یزید بن محمد عامل تھا، نہرزاب کے کنارے یوم شنبہ ۱۱/جمادی الثانی سنہ۱۳۲ھ کومروان بن محمد نے شکست کھائی تھی، مقام حران میں مروان صرف بیس ہی روز قیام کرنے پایا تھا کہ عبداللہ بن علی کے آنے کی خبر سنی، مروان وہاں سے حمص کی طرف روانہ ہوا، جب عبداللہ بن علی حران کے قریب پہنچا توحران کا عامل ابان بن یزید بن محمد سیاہ کپڑے پہن کراور سیاہ جھنڈا لے کر اس کے استقبال کونکلا اور اس کے ہاتھ پرسفاح کی خلافت کی بیعت کرلی، عبداللہ بن علی نے اس کوامان دے دی، مروان حمص میں پہنچا تووہاں کے لوگوں نے اوّل توفرماں برداری وعقیدت کا اظہار کیا؛ لیکن مروان کے ہمراہیوں کوکم دیکھ کرسرکشی اور مقابلہ پرآمادہ ہوئے، مروان وہاں سے تین دن کے بعد ہی چل دیا؛ لیکن اہلِ حمص نے اس کے مال واسباب کے چھیننے کا ارادہ کیا، مروان نے اوّل ان کوسمجھایا؛ لیکن جب وہ باز نہ آئے تومقابلہ پرآمادہ ہوکر ان کوماربھگایا۔ حمص سے مروان دمشق میں پہونچا؛ یہاں کا عامل اس کا چچازاد بھائی ولید بن معاویہ بن مروان بن حکم تھا، یہاں بھی قیام مناسب نہ سمجھ کراور ولید بن معاویہ کومخالفین دولت امویہ سے لڑنے کی ترغیب دے کرفلسطین کی طرف روانہ ہوا اور وہاں خاموش اور بے تعلق زندگی بسرکرنے کے ارادے سے ٹھہرگیا۔ ادھر عبداللہ بن علی حران میں اس قید خانہ کوجس میں ابراہیم بن حمدقید تھے مسمار کرکے دمشق کی طرف روانہ ہوا، راستے میں اس کا بھائی عبدالصمد بن علی جس کوسفاح نے آٹھ ہزار کی جمعیت سے اس کی مدد کے لیے روانہ کیا تھا آپہنچا، اس کے بعد عبداللہ بن علی قنسرین، وبعلبک ہوتا ہوا اور لوگوں سے بیعت لیتا ہوا دمشق آپہنچا، دمشق کا محاصرہ کیا، چند روز محاصرہ کے بعد بتاریخ ۵/رمضان سنہ۱۳۲ھ بروز چہارشنبہ بزور شمشیر دمشق میں داخل ہوا اور دمشق کی گلیوں میں خون کے دریا بہادیے؛ اسی معرکہ میں ولید بن معاویہ حاکم دمشق مارا گیا اس فتح اور قتل عام کے بعد عبداللہ بن علی پندرہ روز دمشق میں مقیم رہا، اس کے بعد فلسطین کی طرف روانہ ہوا، عبداللہ بن علی اپنا لشکر لیے ہوئے ابھی سرحدفلسطین پرہی پہنچا تھا کہ عبداللہ سفاح کا فرمان ہنچا کہ مروان بن محمد کے تعاقب میں اپنے بھائی صالح بن علی کومامور کردو یہ فرمان شروع ذیقعدہ سنہ۱۳۲ھ میں پہنچا، صالح بن علی فوج لے کرروانہ ہوا، مروان یہ سن کرفلسطین سے روانہ ہوکر مقام عریش میں چلاگیا وہاں سے نہرنیل کی طرف گیا، وہاں سے صید کی طرف روانہ ہوا، صالح بن علی بھی بڑھتا چلا گیا اس نے خود فسطاط میں ڈیرہ ڈال کرفوجی دستوں کوآگے مروان کے تعاقب اور سراغ میں روانہ کیا، اتفاقاً صالح کے دستوں سے مروان کے سواروں کا مقابلہ ہوگیا، مروان کے سوار پہلے ہی سے افسردہ خاطر اور بددل تھے؛ انھوں نے مقابلہ نہ کیا اور بھاگ پڑے ان بھاگنے والوں میں سے چند گرفتار بھی ہوگئے ان گرفتار شدہ سواروں سے پوچھا گیا توانھوں نے مروان بن محمد کے قیام کا پتہ بتلادیا کہ وہ قصبہ بوصیر میں مقیم ہے، صالح کی فوج کا افسرابوعون نے یہ بات سن کررات ہی میں مروان کی جائے قیام پرشبخون مارنا مناسب سمجھا؛ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مروان کا مقابلہ آسان نہیں ہے؛ چنانچہ شبخون مارا گیا اس اچانک حملہ سے گھبراکر مروان اپنے مکان سے باہرنکل آیا، ایک شخص نے جوپہلے ہی سے اس تاک میں کھڑا تھا برچھے کاوار کیا، مروان گرا اور اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا کہ افسوس امیرالمؤمنین مارے گئے، اس آواز کوسن کرابوعون اور اس کے ہمراہی دوڑپڑے فوراً مروان کا سرکاٹ لیا اور ابوالعباس عبداللہ سفاح کے پاس روانہ کردیا۔ یہ واقعہ ۲۸/ذی الحجہ سنہ۱۳۲ھ مطابق ۵/اگست سنہ۷۵۰ء کووقوع پذیر ہوا اور اس کے ساتھ خلافتِ بنواُمیہ کا خاتمہ ہوکر خلافتِ عباس کی ابتدا ہوئی، قتلِ مروان کے بعد اس کے لڑکے عبداللہ وعبیداللہ سرزمینِ حبشہ کی طرف بھاگے، حبشیوں نے بھی ان کوامان نہ دی، عبیداللہ حبشیوں کے ہاتھ سے مارا گیا اور عبداللہ فلسطین میں آکرپوشیدہ طور پررہنے لگا، جس کوخلافتِ مہدی کے زمانے میں عامل فلسطین نے گرفتار کرکے مہدی کے دربار میں بھیج دیا اور اس نے اس کوقید کردیا۔