انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یمن سے حضرت علی کی آمد حضور اکرمﷺ کے عمرہ اواکرچکنے کے بعد دوسرے لوگ جو قربانی کا جانور ساتھ نہیں لائے تھے احرام کھول چکے ، اس وقت حضرت علیؓ یمن سے مکہ تشریف لائے، انہوں نے حضرت فاطمہؓ کورنگین کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو اسے اچھا نہیں سمجھا، حضرت فاطمہؓ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضور اکرمﷺ کے حکم سے یہ لباس پہنا ہے جس پر حضرت علیؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تو حضورﷺ نے فرمایا :فاطمہ ؓنے سچ کہا ہے ، حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ " میرے پاس قربانی کا جانور ہے اور تمہارے پاس بھی ہے اس لئے احرام نہ کھولو" ۸ ذی الحجہ ۱۰ ہجری بروزاتوار یوم ترویہ کوسب نے مقام ابطح میں احرام باندھا اور تلبیہ کہتے ہو ئے مکہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے ، منیٰ میں ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں، ۹ ذی الحجہ کو حضور ﷺ نے عرفہ کی رات منیٰ میں بسر فرمائی، نماز فجر وہیں ادا کی، سورج نکلا تو عرفات روانہ ہوئے ، قریش کا معمول تھا کہ بجائے عرفات کے معشر حرام ( جو مزدلفہ میں واقع تھا) ٹھہرتے کیونکہ وہ حدود حرم میں واقع تھا، انہوں نے خیال کیا کہ آپﷺ بھی وہیں ٹھہریں گے؛ لیکن آپﷺ نے میدان عرفات میں مقام نمرہ پر نصب شدہ کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا، زوال کے بعد اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر عرفہ کے مقام بطن وادی میں تشریف لائے اور بعد حمد و ثناء خطبہ ارشاد فرمایا : لوگو : میری بات غور سے سنو ، میرا خیال ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ پر تم سے نہ مل سکو ں اور نہ شاید اس سال کے بعد آئندہ حج کر سکوں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب لوگ آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے پیدا کئے گئے تھے، زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے روندی گئی ہیں، زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں، میں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اپنے ہی خاندان کا ایک خون جو کہ ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا ہے معاف کرتا ہوں، دورِ جاہلیت کا ہر سود معاف ہے اور اپنے عم محترم عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں، ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں، تمہار ے غلام ! جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ، لوگو : تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں، ( آج تک عورتیں ایک جائیداد منقولہ تھیں جو قمار بازی اور داؤں پر چڑھا دی جا سکتی تھیں، آج پہلا دن ہے کہ یہ گروہ مظلوم، یہ صنف نازک ، یہ جوہر نازک قدر دانی کا تاج پہنتا ہے )تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کو تمہارے بستر پر نہ بیٹھنے دیں جسے تم پسند نہ کرتے ہو اور ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کھلی بے حیائی کا کوئی کام نہ کریں لیکن اگر وہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ان کے سونے کی جگہ اپنے سے الگ کر دو، ( اگر اس سے بھی باز نہ آئیں تو ) پھر تمہیں اجازت ہے کہ انہیں ایسی ہلکی مار مارو جس سے بدن پر نشان نہ پڑیں اور اگر وہ اپنی نازیبا حرکتوں سے باز آجائیں تو حسب دستور ان کا کھانا اور کپڑا تمہارے ذمہ ہے ، خبر دار ! کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیرکسی کو کچھ دے ، عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے ہمیشہ پابند رہو کیوں کہ وہ تمہاری زیر نگرانی ہیں اور اس حیثیت سے نہیں کہ اپنے معاملات خود چلا سکیں ، عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمات کے ذریعہ ان کو اپنے لئے جائز اور حلا ل کیا ہے ،