انوار اسلام |
س کتاب ک |
خرید وفروخت کی ممانعت جمعہ کی اذان اوّل پر ہے یااذان ثانی پر؟ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اذان کے ساتھ جمعہ کے لیے دوڑ پڑنے اور خریدوفروخت کوچھوڑ دینے کا حکم دیا ہے، اب یہ خریدوفروخت کی ممانعت کا حکم کس اذان سے متعلق ہوگا؟ اس میں خود فقہاء حنفیہ کی دورائیں ہیں، ایک یہ کہ اس سے دوسری اذان مراد ہے، جوخطیب کے منبر پربیٹھنے کے وقت دی جاتی ہے؛ یہی رائے مشہور فقیہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی ہے: يُكْرَهُ الْبَيْعُ وَالشِّرَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إذَاصَعِدَ الْإِمَامُ الْمِنْبَرَ وَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُونَ بَيْنَ يَدَيْهِ۔ (بدائع الصنائع:۱/۶۰۵) بہ ظاہر یہ رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ جس وقت قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اسی اذان کا معمول تھا اذان اوّل توعہدِ عثمانی سے شروع ہوئی، دوسی رائے یہ ہے کہ اس سے پہلی اذان مراد ہے، اور اذانِ اوّل کے ساتھ ہی خریدوفروخت کوترک کرنا اور جمعہ کے لیے سعی واجب ہے، عام طور پرفقہاء حنفیہ کا رحجان اسی طرف ہے: وَوَجَبَ سَعْيٌ إلَيْهَا وَتَرْكُ الْبَيْعِ..... بِالْأَذَانِ الْأَوَّلِ فِي الْأَصَحِّ۔ (الدرالمختار مع الرد:۱/۵۵۲) اور اسی رائے میں احتیاط معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ لوگ خطبہ جمعہ کوبھی سن سکیں اور آج کل آبادیوں کے پھیلاؤ کے لحاظ سے یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اذان اوّل ہی پرمسجد کے لیے روانہ ہوجائیں، جمعہ کی اذان پرکاروبار کوبند کرنے کا حکم قرآن مجید میں صراحتاً موجود ہے، اس لیے جوشخص جس مسجد میں جمعہ پڑھتا ہو، اس مسجد کی اذان کے بعد کاروبار میں لگا رہنا مکروہِ تحریمی اور باعثِ گنا ہے، آج کل اذان اوّل اور خطبہ کے درمیان بہت وقفہ رکھا جاتا ہے؛اس کی وجہ سے لوگ اذانِ اوّل سن کر فوراً جمعہ کی تیاری میں مشغول نہیں ہوتے ان کے اس گناہ کا سبب مسجد کی منتظمہ ہے؛ اس لیے منتظمہ بھی سخت گناہگار ہوگی، منتظمہ پرلازم ہے کہ اذانِ اوّل وخطبہ کے درمیان زیادہ فصل نہ رکھیں۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۵۲،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند۔ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۱۴، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ احسن الفتاویٰ:۴/۱۱۴، زکریا بکڈپو، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۳۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)